موجودہ معاشی حالات ایسے ہیں کہ کچھ لوگ اپنے جمع شدہ بجلی کے بل کا تذکرہ فخر سے کرتے ہیں۔ کچھ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ میں نیان کے مقابلے میں کم رقم پر مبنی بجلی کا بل بحقِ سرکار ادا ہے۔ کچھ دوست آئندہ ماہ آنے والے بجلی کے بل کا خوف طاری کر لیتے ہیں۔ البتہ ایک بات یقینی ہے۔ جیب میں پیسے نہ ہونے کے عذر کو جس طرح پہلے آخری تاریخوں سے منسوب کر کے اسے ایک جائز مقام دیا جاتا تھا۔ عقل سلیم کا تقاضا ہوتا تھا کہ مہینے کی آخری تاریخوں میں لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن اب مہینے کی پہلی تاریخوں میں بھی اگر یہ کہا جائے کہ جیب میں نام خدا ہے تو اب یہ سب کا ہی مشترکہ مسئلہ ہے۔
مہنگی بجلی کی طرح ہم نے اندر سے اسے بھی قدر قبول کر لیا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ میرے پاس پیسے نہیں، میں کوئی قباحت یا شرم محسوس نہیں کی جاتی ہے۔
ان بارشوں کے موسم میں ، جب خنکی پر تول رہی ہے۔ ایسے میں اے سی 16 سینٹی گریڈ پر ٹکانا اور خشک پھل میوجات سے لطف اندوز ہونا بھی فیشن ہے۔ اس دور کے انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق یہ سب جائز ہے۔ پہلے یہ اعزاز موسیقی اساتذہ خاں صاحباں اور گانے والوں تک محدود تھا کہ سردی کا استقبال سب سے پہلے یہ طبقہ کرتا تھا۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ یہ معلوم ہو کہ جیکٹ سویٹر کب پہننا شروع کر دینا ہے اور کس موسم میں ختم کرنا ہے۔
ماہ اگست 2024 کے آخری ہفتے کے پیر کے روز شدید طوفانی بارش میں اک قدر محفوظ جگہ چھپر کے نیچے پناہ لیے ، پانی کے اترنے کا انتظار کر رہا تھا۔
دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان کندھے اچکاتا ہوا، بالکل میرے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالے۔ اپنے ماتھے اور رخسار پر آئے ہوئے بالوں کو جھٹک کر دوسری طرف کیا۔ اور نوجوان مجھ سے مخاطب ہونے کو تھا۔
نوجوان نے اپنے رخساروں پر جھریاں بکھیرتے ہوئے، بڑے پرجوش انداز میں سلام کیا۔ میرے ہاتھ کے پنجے کے علاوہ باقی جسم و جاں نے اس کا بھرپور اور والہانہ جواب دیا۔ نوجوان نے کہا کہ بارش میں پھنس گیا ہوں۔مجھے لینے کے لیے گھر سے گاڑی بھی اس جگہ پہنچ نہیں سکتی اور یہاں کوئی ٹیکسی سروس بھی آنے کو تیار نہیں ہے۔ فرمانے لگے آپ مجھے پانچ ہزار روپیہ قرض دیجیے۔ یقین جانیے مجھے اپنی سبکی محسوس ہوئی، میرے پاس پیسے نہیں تھے، کاش میں اس نوجوان کی کوئی مدد کر سکتا۔ البتہ میں نے اسے چائے کی پیشکش کی۔ اس بات پر نوجوان تلملا اٹھا اور کہنے لگا۔ شکل سے تو آپ شریف آدمی لگتے ہیں اور جیب میں آپ کی دو ہزار روپیہ تک نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اپ نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے۔ شکل سے میں ہی شریف آدمی لگتا ہوں۔ میں معذرت خواہ ہوں ائندہ بھرپور کوشش کروں گا کہ جیب میں دو ہزار روپیہ ہر وقت موجود ہو تاکہ اگر آپ جیسے کسی نوجوان کا سامنا ہو تو دونوں کی موجودگی میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس واقعہ سے مجھے ایک ادبی واقعہ یاد آ رہا ہے۔
ایک دن پاک ٹی ہاؤس جو نیلا گنبد مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔ اس کا تعارف یہ ہے کہ وہ ادیبوں اور دانشوروں کی وہ نشست گاہ جو قیام پاکستان کے بعد بڑی مشہور ہوئی، تقسیم کے بعد لاہور ایک الگ دبستان کی حیثیت سے جان نہ جانے لگا۔
لاہور کے سب بڑے بڑے ادیب دانشور شاعر حتیٰ کہ دوسرے شہروں سے مشاعروں میں شرکت کے لیے آئے ہوئے مہمان شعراء بھی شام میں یہیں برا جمان رہتے تھے۔ لاہور کے ہر معروف ادیب کا پہلا پتہ پاک ٹی ہاؤس ہوتا تھا۔ رات گئے تک پاک ٹی ہاؤس کی رونقیں بحال رہتی تھیں۔ کئی تانگے والے جانتے تھے کہ اندرون بھاٹی لوہاری کے لیے اخری سواریاں یہیں سے ملیں گی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ "ایک مرتبہ پاک ٹی ہاؤس کے باہر کچھ ادیب اور شاعر ایسے ہی کھڑے تھے- ایک فقیر نے آ کر حبیب جالب کے آگے دست سوال کیا- جالب اسے ٹالنے کی کوشش کرتے رہے وہ فقیر بڑا ثابت قدم تھا سوال دہراتا رہا- احمد راہی نے اس فقیر کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ وہ کتنے عرصے سے مانگ رھا ہے؟ فقیر نے حیرت سے احمد راہی کو دیکھا اور کہا: "ہم تو آپ کے ٹکڑوں پر ہی پلتے ہیں"- احمد راھی نے کہا: "بس یہ بتاؤ کہ تم کتنے برسوں سے بھیک مانگ رہے؟"- بھکاری نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا: "بادشاھو! میں پندرہ بیس سال سے بھیک مانگ رھا ہوں"- احمد راھی نے کہا: "او? بدبخت! تمہیں ابھی تک یہی پتہ نہیں چلا کہ کس کو دینا ہے اور کس سے مانگنا ہے-"
حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی سے مانگنا ہے۔ وہی عطا کرنے والا ہے۔ مسجد کے باہر بھی جھولی پھیلا دی تو وہی دے گا۔ مسجد کے اندر اس کی بارگاہ میں جھولی پھیلا دی تب بھی وہی دے گا۔ لین دین زندگی کا غم روزگار ہے۔ زندگی کی ہر سانس لین دین میں مضمر ہے۔ انسان کا ضمیر سویا ہو یا جاگ رہا ہو وہ اللہ کے سامنے اس لین دین میں شرمندہ نہ ہو۔ دنیاوی عوامل میں بھی مانگنے اور دینے کا کوئی اصول سلیقہ اور طریقہ ضرور ایسا ہونا چاہیے جو انسان کو جیتے جی موت سے بچا لے۔ خودداری اور ضمیر نہ صرف زندہ ہوں بلکہ روشن اور باکردار نفس کی نمائندگی کریں۔