16ویں اور 17ویں صدی میں برطانیہ کی کالونیوں سے انگریزوں کے پاس بے حساب دولت آئی ،اور اسی دولت سے انھوں نے ہاوس آف کامنزکو خریدنا شروع کر دیا ،اور خریدنے سے مطلب یہ ہے کہ الیکشن میں یہ پیسہ چلنا شروع ہو گیا اور اس سے جو لوگ سامنے آنے لگے انہیں Nbabsکہتے تھے اور یوں اس طرح کی پارلیمان انگلینڈ میں چلتی رہی لیکن بہت زیادہ عرصے تک نہیں چل سکی اور الیکٹرورل پراسیس کو بہتر کرنا پڑا اور صیح نمائندوں کا چنائو ہوا لوگوں کو آزادنہ طور پر ووٹ دینے کی آزادی دی گئی اور آزادی اظہار رائے کا مکمل نظا م تیار کیا گیا اور اس کے بعد انگلستان کی جمہوریت تسلسل کے ساتھ چلتی رہی اور بہت اچھے انداز سے چلتی رہی اور ان کی قوت میں اضافہ ہو تا چلا گیا۔یہ نظام ایک تسلسل کے ساتھ عرصہ دراز سے چل رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت تغیر اور تبدیلیاں بھی آئیں ہیں ،حکومتیں اپنی مدت مکمل کرتی ہیں اور ایک سیاسی استحکام اور ٹھہرائو کا مزاج بن چکا ہے ،چاہے وہ کسی بھی جماعت کی حکومت کیوں نہ آئی ہو چاہے لیبر بر سر اقتدار ہوں یا پھر کنزروٹیو ،ایک سیٹل فریم ورک آف ایڈ منسٹریشن میں لوگوں کی سہولت کاری اور ترقی کے عمل کو مسلسل بڑھاتی رہی ہے جو کہ ان کی کامیابی کی بنیاد ہے ،اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہی معلوم ہو تاہے کہ جن بھی ممالک نے تیزی سے ترقی کی ہے ان کے ہاں ان کا نظام بہت مضبوط ہے ،حکومت سے زیادہ مضبوط نظام ہو تا ہے اور جو پا ئیداری کو بر قرار رکھتا ہے۔پالیسیوں میں عدم تسلسل اور سیاسی عدم استحکام قوموں کے زوال کی بڑی وجہ ہو تی ہے اور ہمیں بھی اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی۔حالیہ دنوں میں انگلستان میں جو عدم برداشت کے واقعات سامنے آئے ہیں ،ان کے حوالے سے بھی ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے نظام نے کیا اور کیسا ردعمل دیا ؟ واقعات ضرور پیش آئے وہ تو کہیں بھی آسکتے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہوا کہ ان کا نظام حرکت میں آیا ،ایک ہی مہینے کے اندر اندر تمام مجرم پکڑے بھی گئے ہیں اور ان کے خلاف عدالتی کاروائی کا نہ صرف آغاز ہو گیا بلکہ کئی کو سزائیں بھی سنا ئی جاچکی ہیں۔اور ایسے ہی اقدامات سے ہی بہت جلد ہی امن کو واپس لایا گیا اور اب یقینا برقرار بھی رہے گا ،لیکن ہمارے ہاں ہم کوئی بھی چیز بہتر انداز میں کرنے کو تیار نہیں ہیں ،ہر چیز میں دو نمبری ہے ،کوئی بھی چیز بہتر انداز سے کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی ہے اور یہی ہمارا لمیہ ہے۔ ہر جانب افراتفری موجود ہے ہمیں معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ملک کو مزید اس طرح سے نہیں چلایا جاسکتا ہے ہمیں بہتری کی راہیں تلاش کرنا ہو ں گی اس سے پہلے کہ زیادہ دیر ہو جائے۔ ہمارے مسائل کی جڑ الیکشن کمیشن میں ہے اور الیکشن کمیشن نے رنگا رنگ قسم کا الیکشن قوم کے حوالے کیا ہے اور فارم 47کے استعمال سے جیتے ہو ئے لوگوں کو ہروا دیا گیا ہے اور ہارے ہوئے لوگ جیت گئے ہیں اور یوں ایک اسمبلی معرض وجود میں آئی ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر ہے اور اب یہ اسمبلی آئینی ترمیم بھی کر لے گی اور سپریم کورٹ کے ججوں کی مدت بڑھانے کی ترمیم کی جارہی ہے جو کہ بالکل ہی غیر ضروری ہے۔ایسی ترمیم سے اداروں کو نقصان پہنچے گا ہمارا مسئلہ ہی یہی رہا ہے کہ ہم اداروں کی مضبوطی اور پا ئیداری کے قائل نہیں رہے ہیں اور شخصیت پرستی کے اسیر رہے ہیں ،اور یہی ہماری بطور قوم ناکامی کی بھی وجہ ہے۔ہم ہمیشہ ہی ایک شخص سے امید رکھتے ہیں کہ مسیحا ثابت ہو گا لیکن ایسا ہو تا نہیں ہے ہم نے کبھی بھی ادارہ جاتی سطح پر معاملات کو سلجھانے کا سوچا نہیں ہے۔بلو چستان میں آجکل جو حالات چل رہے ہیں وہ تشویش ناک ہیں ،اور میں یہاں پر اصل حالات بیان کروں تو وہ پاکستان کی سالمیت اور ترقی کے لیے اچھے نہیں ہیں۔جب تک کہ بلوچستان میں ایسی حکومت نہیں آتی ہے جو کہ بلوچستان کے عوام کی حمایت اور تائید رکھتی ہو اور اس کو منشا اور مرضی حاصل ہو تب تک ایسی حکومت مسائل حل نہیں کرسکتی ہے۔اس وقت بلوچستان سے جو ارکان پارلیمنٹ منتخب ہو ئے ہیں ،ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے الیکشن سے قبل اپنے کاغذات نامزدگی واپس لیے تھے اور الیکشن کے بعد ان کو سوتے سے اٹھایا گیا اوربتایا گیا کہ آپ الیکشن جیت چکے ہیں۔اس سے زیادہ واضح مثال میں نہیں دے سکتا ہوں ،جب تک یہ معاملات اسی طرح رہیں گے بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔بلوچستان میں حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندے سامنے آنے چاہیے۔ماضی میں ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ کی حکومت نے تمام اہداف احسن طریقے سے حاصل کیے تھے ان کے دور میں امن و امان بھی بہت بہتر ہو گیا تھا اسی طرح سے دہشت گردی میں بھی واضح کمی آئی تھی اور اسی طرح سے ترقیاتی کام بھی بڑے پیمانے پر ہو ئے تھے اور مجموعی طور پر بلوچستان میں بہتری اور استحکام آیا تھا۔ماضی سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان میں ایسے لو گ موجود نہیں ہیں ،جو کہ صلاحیت نہ رکھتے ہوں ،دماغ نہ رکھتے ہو ں یا پھر ارادہ نہ رکھتے ہوں ،اصل مسئلہ یہ ہے کہ صیح لوگوں کو صیح جگہ پر آنے سے روکا جا رہا ہے اور جب تک یہ روکا روکی ختم نہیں ہو گی حالات مخدوش ہی رہیں گے۔نہ کوئی ترقی ہو گی ،نہ صحت کا نظام بہتر ہو گا نہ ہی تعلیم کا اور امن و امان کا تو اللہ ہی حافظ ہو گا۔ہم سب کی یہی کوشش ہو نی چاہیے کہ ملک بھر میں الیکشن درست انداز میں ہوں اور شفاف ہوں تاکہ درست نمائندہ گان حکومت میں آئیں اور ملک کا نظام بہتر طریقے سے چل سکے۔