یہ نقطہ سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ بلوچستان میں مستقل امن کوٹہ سسٹم سے نہیں بلکہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور انصاف قائم کرنے سے ہوگا
بلوچستان میں پنجابیوں کے شناختی کارڈ دیکھ کے انہیں قتل کرنے کا سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے ۔بدقسمتی سے نہ تو کسی پنجابی راہنما نے اس بارے کبھی کوئی دلیرانہ موقف دیا ہے نہ قومی میڈیا پر اس حوالے سے بامقصد مکالمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔کبھی پنجاب کے فنڈز کٹوتی کرکے بلوچستان کو دئیے جاتے ہیں ،کبھی پنجاب کا پانی دوسرے صوبوں کو دیا جاتا ہے ۔ بڑے بھائی سے قربانی دلوانے اور پھراسے چھوٹوں سے گالیاں اب تو قتل کروانے کا سلسلہ بند ہوناچاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ پنجاب پر حکومت کرنے والوں نے کبھی پنجابی ہونے،پنجابی زبان بولنے اور پنجابی ثقافت کورائج کرنے کے لیے کام نہیں کیا۔ایک دو بیانات یا ایک دن پگڑی پہننے والے ہمارے سیاست دان بڑے بھائی’پنجاب‘ کے وسائل ہمیشہ سے دوسرے صوبوں میں تقسیم کرتے رہے ہیں اس کے باوجود چھوٹے صوبوں کے لوگ پنجابیوں سے دور ہو رہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سیانوں نے بلوچستان کے لوگوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اُن کی محرومیوں کی وجہ پنجاب ہے ۔بلوچستان میں اگر قدرتی وسائل کی بہتات ہے تو وہاں صنعتی شہر بسائے جائیں۔آئی ٹی مراکز اورٹیکنیکل ادارے قائم کیے جائیں تا کہ بلوچ نوجوانوں ہنر سیکھ کے بہتر روزگار حاصل کر سکیں۔اور کوٹہ کے حساب سے نہیں بلکہ قابلیت کی بنیاد پر انہیں روزگار فراہم کیا جائے ۔شیخ مجیب نے لاہور میں ہی بیٹھ کے کہا تھا کہ اسے اسلام آباد کی چمکتی سڑکوں سے ڈھاکہ کے پٹ سن کے خوشبو آتی ہے۔کاش اسے پٹ سن کی انڈسٹری میں مغربی پاکستان کے لوگوں کی سرمایہ کاری بھی نظر آئی ہوتی ۔شیح مجیب کا مقصدنے مغربی پاکستان کی ترقی کی بنیاد پر مشرقی پاکستان میں عصبیت کو فروغ دینا تھا۔اس نے دشمن دیش کا آلہ کار بن کے ریاست پاکستان سے نفرت کی فضا کو ہوا دی ۔شیخ مجیب نے نفرت کی جو فصل بوئی تھی اس کا اثر ختم ہونے میں نصف صدی لگی۔پاکستان کے حمایتوں پر بدترین تشدد کرنے والی انہیں پھانسیاں دلوانی والی شیخ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ عوامی احتجاج کے بعد اقتدار سے الگ ہونے کے بعد فرار ہوکے بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کے گلے میں لوگوں نے جوتوں کے ہار پہنا کے ثابت کردیا ہے کہ وہ بنگلہ قوم کا باپ یا راہنما نہیں تھا۔بنگلہ دیش میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں ۔دوستی،بھائی چارے اور مل کے آگے بڑھنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت سے علیحدگی کو بھارت ہضم نہیں کرپارہا ہے ۔بھارتی میڈیا بنگلہ دیش کے عوام کا بھارت نواز حکومت سے نفرت کی وجہ پاکستانی ایجنسیوں کو قرار دے رہا ہے۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے جتنا بڑا صوبہ ہے آبادی کے لحاظ سے صورتحال بالکل ہی الٹ ہے ۔میلوں دور تک آبادی کے آثار کا نظر نہ آنا دشمن کے لیے قدم جمانے میں آسانیاں پیدا کرتا رہا ہے ۔دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان میں مناسب وقفے سے جدید سہولتوں کے ساتھ نئے شہر آباد کیے جائیں۔ جس سے مقامی لوگوںکے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔روز گار خوشحالی لاتا ہے اور جس کے گھر دانے یعنی آسودگی ہو، وہ اپنے بچوں کے بہتر مسقتبل کے لیے امن کا ماحول بنانے کی خواہش کرتا ہے ۔
مجھے ریاست پاکستان سے بہت پیار ہے ۔وطن کے لیے فوج کے ساتھ میدان جنگ میں جانے کے لیے بھی تیار ہوں لیکن پنجاب میں پیدا ہوا ہوں میری تربیت میں صوفیا کا امن و محبت کا پیام شامل ہے۔ہاںمیں پنجابی ہوں ،عصبیت کی نہیں اصول کی بات کرتا ہے اگر کوئی دوسرے صوبے سے پنجاب میں آکر اپنی روٹی روزی بھی کمائے اور میری دھرتی کے لوگوں کو شناخت کرکے شہید کرے تو یہ کیسے قبول کیا جاسکتاہے ۔پاکستان میں رہنے والے سب ایک قوم ہیںسب کو برابر حقوق ملنے چاہیے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچ نوجوانوں کے لیے کوٹے مخصوص کیے جاتے ہیں تو کبھی دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے شہروں،قصبوں اور محلوں تک کوئٹہ کیفے کے نام سے بلوچ لوگوں کا کاروباری نیٹ ورک پھیلا دیا جاتا ہے ۔ہمیں نہ تو پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ نوجوانوں کے تعلیم حاصل کرنے سے مسئلہ ہے اور نہ پنجاب میں ان کے کاروبار سے کوئی لینا دیناہے ۔لیکن دوسرے صوبوں کے حکمرانوں کی طرف سے ترقیاتی فنڈز ہڑپ کرنے اور اپنے لوگوں کے لیے سہولتیں فراہم نہ کرنے کو بنیاد بنا کر وہاں کے نوجوانوں کے لیے پنجاب میں کوٹے مخصوص کرنے سے پنجابی نوجوانوں کی حق تلفی کرنے سے اختلاف ضرور ہے ۔ویسے بھی اگر ریاست کی نظر میں سب شہری برابر ہیں تو پھر کوٹہ سسٹم مکمل بند کردیا جانا چاہیے۔جب بلوچ نوجوان اپنے گھر سے ہزاروں میل دور پنجاب کی درسگاہوں میں پڑھنے آتے ہیں ۔پنجاب میں امن و امان کی صورتحال دیکھتے ہیں ،شاپنگ مالز ،کاروباری مراکز اور لوگوں کا آسودہ رہن سہن دیکھتے ہیں توان کے اندر احساس محرومی پیدا ہوتا ہے ۔بلوچستان میںجب پیسہ خرچ کرکے حکومتیں بنائی جائیں گی تو سیاستدان عوام کی خدمت کرنے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنے کی کوشش کریںہیں ۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں قائم ہونے والی حکومتوں سے لاپروائی ہوئی ہے ۔اعداد و شمار کے ماہرین بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے ریاست معقول رقم فراہم کرتی ہے ۔لیکن وہاں عام شہریوں کے لیے بنیادی سہولتوں کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ماضی میں کئی سیاستدانوں کے گھروں سے کروڑوں روپے نقدی برآمد ہونا اس کی واضع دلیل ہے ۔بلوچستان میں عوام کو سہولتیں فراہم کرنیکا آسان نسخہ یہ ہے کہ ریاست وڈیروں،نوابوں اورسرداروںکو فنڈز دینے کی بجائے خود اپنی عمل داری میں وہاں میں ترقیاتی کام شروع کروائے۔نئے شہر آباد کرے،جدید ہسپتال بنائے،کھیلوں کے میدن ،ثقافتی مراکز اورتعلیمی ادارے قائم کرے۔
٭…٭…٭