الطاف حسن قریشی۔’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘

Sep 02, 2024

فاروق عالم انصاری

جس معاشرے میں پڑھنے کا شوق ذوق دم توڑ جائے وہاں برگسان اور نٹشے جیسے عظیم قلمکاروں کی تحریریں بھی بھلا کیا تبدیلی لا سکتی ہیں۔ لیکن اہل جنوں چین سے بیٹھنے والے کب ہوئے ہیں؟ پاکستان کے بزرگ ترین صحافی الطاف حسن قریشی نے پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ کی معاونت سے ایک کتاب لکھ دی ہے۔ یہ قیام پاکستان تک کی ہماری سیاسی اور آئینی جدو جہد کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
کتاب کا عنوان پڑھئیے: 
’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘۔ 
کتاب یہ جانتے بوجھتے لکھی گئی ہے کہ ہمارا معاشرہ کتاب دوست بالکل نہیں۔ پھر ہمارے سنجیدہ حلقوں میں بھی سنجیدہ تحریریں پڑھنے کا چلن نہیں رہا۔ اب یہاں صرف لطیفے ہی سنے سنائے جاتے ہیں۔ کوئی لطیفہ جتنا فحش ہو اتنا ہی پرلطف سمجھا جاتا ہے۔ مسخرے ہی دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں وہی اپنے حصے کی شمع جلانے کا فرض ادا کرنے کی دھن ہی اس کاوش کا موجب ٹھہری ہے۔ 
لفظ ’’آئین‘‘سے ذہن میں فوراً گنگناتے، چہچہاتے درویش شاعر حبیب جالب کا خیال آجاتا ہے۔ پھر اس کی نظم دستورکے مصرعے ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔ ’’اس دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا۔ دیپ جس کا محلا ت ہی میں جلے۔ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے۔ وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے۔ ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا‘‘۔
 یہ   62ء کے ایوب خانی آئین کا تذکرہ ہے۔ جسٹس کیانی نے اس آئین کولائلپور کے گھنٹہ گھر سے تشبیہہ دی تھی۔ آٹھ بازاروں کے وسط میں کھڑے اس گھنٹہ گھر کو جدھر سے بھی دیکھیں وہی نظر آتا ہے۔ 
اسی طرح 62ء کے آئین میں جنرل ایوب خاں کی شخصیت بھی’توہی آیا نظر جدھر دیکھا‘ کا سا منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ جمہوریت پر ایمان رکھنے والے لوگ سرے سے ایوب خانی آئین کو آئین ماننے سے انکاری تھے۔ سینئر قانون دان بیرسٹر منظور قادر نے جنرل ایوب خاں کی منشاء کے مطابق اس آئین کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔اس جرم پر’’نوائے وقت‘‘ کے بانی جناب حمید نظامی نے ایک اعلیٰ سطح کی تقریب میں ان سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ تحریک پاکستان کے ایک کارکن کا اپنے جمہوری جذبہ کی غیرت کا اظہار تھا۔
 مولانا آزاد نے لکھا۔ میرا ایمان کفر و الحاد کی تمام وادیوں کی خاک چھان کر پختگی کی منزل تک پہنچا ہے۔
 اسی طرح قائد اعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر کیا تھا۔ پھر تنگ نظر ہندو ذہنیت او ردیگر حالات نے ان پر مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن حاصل کرنے کی ضرورت آشکار کی۔ پھر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم نو کروڑ مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ متحدہ ہندوستان میں اپنے سوا کسی عدالت کی صوابدید پر نہیں چھوڑ سکتے۔ 
آج ہماری جاگیرداری کی لعنت سے نجات نہ پا سکنے، ایک طبقہ کے سبھی طبقوں پر غیر منصفانہ مالی اور سیاسی تسلط، سول بالا دستی کے فقدان اور دور دور تک بہتری کا کوئی امکان نہ نظر آنے کے باعث بہت سے لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ شاید ہمارا الگ وطن حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے بٹوارے کا عمل غلط تھا۔ اس کتاب میں واضح کی گئی قائد اعظم کی سیاسی اور آئینی جدو جہد ان کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہے۔ اس کتاب میں قائد اعظم کے متحدہ ہندوستان سے پاکستان تک کے ذہنی سفر کی پوری روداد موجو د ہے۔ 
1937ء کے انتخابات کے بعد قائد اعظم کا سیاسی کردار ہندوستان کے آئینی بندوبست میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ کتاب کے مصنف موضوع پر گہرائی سے مطالعہ کرنے کے لئے قائد اعظم پر ایک اتھارٹی سمجھے جانے والے جناب حفیظ اللہ خاں نیازی سے رجوع کرتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں ایک کتاب کی نشاندہی کی۔ کتاب کا نام ہے۔
The Political Career of Muhammad Ali Jinnah۔ 
یہ در اصل ایک امریکی محقق ولیم سٹیفورڈ سیٹنر کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو انہوں نے 1952ء میں پنسلوینیا یونیورسٹی میں جمع کروایا تھا۔یہ مقالہ کتابی شکل میں 2017ء کو شائع ہوا۔ اس کے دیباچہ میں معروف اسکالر محمد رضا کاظم لکھتے ہیں۔’’اس کتاب کے پندرہویں باب میں امریکی محقق نے قائد اعظم کی وکالت اور سیاست کا ذکر کرتے ہوئے ان کے نظریہ میں اس حیرت انگیز تبدیلی کا جائزہ لیا ہے جو انہیں ہندو مسلم سفیر سے تحریک پاکستان کا قائد بنانے تک لے آیا‘‘۔
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز ہندوستان پر پوری طرح قابض ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر دی گئی۔ تمام اختیارات برطانوی پارلیمنٹ کو منتقل ہو گئے۔ اب 1858ء کے ایکٹ کے مطابق وزیر ہند کا تقرر بھی ہو گیا۔تین برس بعد انہوں نے محسوس کیا کہ مقامی آبادی کو نچلی سطح پر انتظامی معاملات میں شامل کرنا چاہئے۔ اس طرح تمام صوبوں اور پریزیڈنسیوں میں مقامی کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
1857ء سے پہلے قانون سازی گورنر جنرل کی انتظامی کونسل کے سپرد تھی۔ نئے ایکٹ کے تحت اس میں ہندوستانیوں کو بھی شرکت کا موقعہ مل گیا۔گورنر جنرل کی کونسل میں Members Additional کا تقررہوا۔ آپ انہیں غیر سرکاری ممبر بھی کہہ سکتے ہیں۔ 1861سے 1891ء تک جو غیر سرکاری ارکان کونسل میں نامزد کئے گئے وہ عموماً ریاستوں کے والی، شہزادے، بڑے تاجر، جاگیردار یا ریٹائرڈ سرکاری افسران تھے۔ انہیں صرف جائیداد ٹیکس اور وراثت کے امور سے دلچسپی تھی۔ کونسل کے اجلاس میں بل ایک ہی نشست میں منظور کر لئے جاتے۔ 1878ء میں سر ہنگری مین نے لکھا کہ ممبران اجلاس میں آتے وقت بہت ہچکچاتے ہیں اور جانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ یہ کونسل کم و بیش وائسرائے کے دربار کے طور پر کام کرتی رہی۔ آہستہ آہستہ کونسل میں غیر سرکاری اراکین کی تعداد اور اختیارات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب وہ سوال بھی پوچھ سکتے تھے لیکن ان کی اجلاس کی کاروائی سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ 1905-06 ء کے دو برسوں میں صرف 13سوال پوچھے گئے۔ اگر افسران کو جواب کی تیاری میں زیادہ محنت کرنا پڑتی تو وہ سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیتے تھے۔یہ تمام غیر سرکاری ارکان عام طور پر خاموش اور مودب رہتے۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی اور آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہم اپنی پارلیمنٹ کا معیار ان دنوں سے بہتر نہیں کر سکے۔
اس زمانہ میں خودسری اور بیباکی کا ایک واقعہ ہی اس کتاب میں پڑھنے کو ملا۔ یہ نواب محسن الملک تھے علیگڑھ یونیورسٹی کی انجمن کے جنرل سیکرٹری۔ لاٹ صاحب سے ان کا بیباکانہ لب و لہجہ اورانداز تکلم برداشت نہ ہوا۔ پھر انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل آپ کتاب سے پڑھ سکتے ہیں۔ یہ نواب محسن الملک ایوب دور میں لاہور کا شاہی قلعہ بھگتنے والے سوشلسٹ لیڈر سید حسن ناصر شہید کے نانا تھے۔ خون کی لالی چند نسلوں تک ضرور رہتی ہے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں