جب سے انسان روئے زمین پر آباد ہوا ہے آپس میں مختلف میدانوں میں مقابلہ کرناانسانی فطرت بن چکی ہے۔روزِ ازل سے لیکر آج تک یہ مقابلے جاری ہیں۔کبھی کھیل کے میدان میں، کبھی طاقت کے میدان میں، کبھی جنگ کے میدان میں، کبھی زور آزمائی کے میدان میں اور کبھی حسن کے میدان میں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں مقابلے ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے لیکن جنوبی ایشیاء وہ خطہِ زمین ہے جہاں عام مقابلوں کے علاوہ کچھ خاص قسم کے مقابلے بھی ہوتے ہیں جو شاید دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتے اور یہ ہے قتل و غارت کا مقابلہ جس کا موجب بھارت ہے۔
کسی یورپی مؤرخ نے لکھا تھا کہ بھارت میں تین قسم کی اقوام رہائش پذیر ہیں۔ اوّل ایک ایسی قوم ہے جو بہت شاطر اور مستقبل کی سوچ رکھنے والی قوم ہے۔ یہ کئی سال آگے کا سوچتی ہے اور آنے والے وقت کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھتی ہے۔ ایک وہ قوم ہے جب اْس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو تب سوچنا شروع کرتی ہے اور تیسری وہ قوم ہے جو واقعہ گزرنے کے کئی سال بعد سوچنا شروع کرتی ہے۔ قارئین سمجھ تو گئے ہونگے کہ پہلی شاطر قوم ہندو ہیں۔ اب ہوا یوں کہ جب ہندوستان آزاد ہوا تو بھارتیوں نے سوچا کہ ہمارے پاس کوئی ایسا مقام ہونا چاہئے کہ جب کوئی غیر ملکی اہم شخصیت یا وفود بھارت وزٹ کے لئے آئیں تو ہم انہیں اہم جگہ پر سلامی کے لئے لے جائیں۔وہاں پھول چڑھائیں اور بھارت کے حق میں دعائیں کرائیں اور یوں بھارت کی عزت اور شان میں اضافہ ہو۔ سوچ سوچ کر نظر ’’باپو‘‘ یعنی مہاتما گاندھی پر پڑی۔ یوں اْ سے گولی مار کر بھگوان کے پاس بھیج دیا۔ پھر اْسکی سمادھی بنائی جہاں غیر ملکیوں کو لے جا کر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔
اب بھارتیوں نے پاکستانیوں کو طعنے دینے شروع کئے کہ اگر تم میں ہمت ہے تو ہمارے جیسا کارنامہ کر کے دکھاؤ تو سید اکبر نامی افغان کے ذریعے پاکستان کے محبوب وزیراعظم جناب لیاقت علی خان کو دن دہاڑے گولی مرواکر شہید کردیا۔ قوم اْس دن سے پٹڑی پر سے ایسی اْتری کہ آج تک پٹڑی پر نہ چڑھ سکی۔ اِسی عرصے میں بنگلہ دیش آزاد ہوا تو اْ سے پاکستان اور انڈیا دونوں نے بزدلی کے طعنے دئیے تو جوش میں آکر بنگالی بھائیوں نے بھی اپنے وزیر اعظم جو ’’بنگو بندھو‘‘ یعنی قوم کا باپ کہلا تا تھا کو بمعہ فیملی گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اْتار دیا۔
اس عرصے میں ایران بھی اس مقابلے میں شامل ہو گیا اور اپنے پیارے شاہ کو پوری فیملی سمیت دیس نکالا دے دیاا ور ہزاروں کے حساب سے لوگ قتل کئے۔ اب ہمارے افغان بھائیوں کو بھی جوش آیا تو انہوں نے لاشوں کی قطار لگا دی۔ ساتھ اعلان بھی کیا ’’ خوچہ تم ہم کو کیا سمجھتا ہے؟‘‘
اسی دوران بھارت نے پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے ارد گرد کے تمام ممالک کو اپنی طاقت سے ڈرایا کہ اگر کسی نے بھی بھارت کے سامنے آنے کا سوچا تو بھارت اْسے ملیا میٹ کر دے گا۔ یہ دھمکی خاص کرپاکستان کے لئے تھی۔ اْس وقت کا پاکستانی وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو خاموش نہ رہ سکا۔بھٹو صاحب نے ایٹمی طاقت بننے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ ابتدائی اقدامات بھی شروع کر دئیے۔ بھارت کو پتہ چلا تو وہ پھر دوبارہ امریکہ کے پاس دوڑا۔ وہاں رویا پیٹا تو امریکہ نے ترس کھا کر پاکستانی پروگرام روکنے کے لئے سیکرٹری خارجہ ہینری کیسنجر کوپاکستان بھیجا لیکن اْسے ہمارے پْرعزم وزیراعظم سے بات چیت میں ناکام لوٹنا پڑاجو کہ امریکہ اور بھارت برداشت نہ کر سکے۔انتقام کی آگ میں جلنے والے ان ممالک نے ہمارے اس عظیم لیڈر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکوا دیا۔
اب بنگلہ دیش، ایران ، افغانستان اور پاکستان سب اپنے اپنے حصے کا خون بہا چکے تھے۔ خطہ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا۔اب سب نے ملکر ایک دفعہ پھر بھارت کی طرف دیکھنا شروع کیا کہ اب وہ کیسے یہ بدلہ اْتارتا ہے۔تو بھارت نے اپنے متوقع وزیر اعظم اور اْس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کو ہوا میں ہی ملک عدم بھیج دیا۔اس دوران ہمارے بنگالی بھائیوں کا صبر کا پیمانہ ایک دفعہ پھر لبریز ہو گیا۔انہوں نے بھارت کا انتظار کئے بغیر اپنے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الرحمٰن کو گولی مار کر قتل کر دیا۔خطے کے طعنے اور سارا بوجھ ایک دفعہ پھر بھارت پر آگیا۔گھبرا کر بھارت نے اپنی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کو گولیوں سے چھلنی کر کے اس دنیا سے باعزت طور پر رخصت کیا۔ اب بال ایک دفعہ پھر پاکستان کے کورٹ میں آگئی۔بھارت نے کچھ سال تو انتظار کیا لیکن جب پاکستان نے کوئی قدم نہ اْٹھایا تو شنید ہے کہ اس دفعہ بھارت اسرائیل کے سامنے رویا پیٹا تو اسرائیل نے 1988ء میں پاکستانی صدر جناب جنرل ضیاء الحق صاحب بمعہ آدھادرجن سنئیر آرمی جنرلزاور امریکی سفیر کے ان کے طیارے کو بہاولپور سے پنڈی آتے ہوئے راستے میں بھسم کر دیا۔ایک سوچ یہ بھی ہے بھارت نے میزائیل مارا۔
اندارا گاندھی کی موت کے بعد اس کا بیٹا راجیو گاندھی بھارت کا وزیراعظم منتخب ہوا۔اِسے سری لنکا کی اندرونی لڑائی میں دخل اندازی کا شوق چْرایا۔ کچھ عرصہ تو سری لنکا نے برداشت کیا لیکن جب معاملہ ریڈ لائن کراس کر گیا تو انہوں نے محترم کو اپنی ماں کے پاس بھیج دیا۔اب سری لنکنز کو بھی غصہ آیا کہ وہ اب تک جنوبی ایشیاء کی اس گیم سے باہر کیوں ہیں؟ انہوں نے پہلے اپنے صدر پریما داسا اور بعد میں اپنی وزیر اعظم مسز بندرا نائیکے کو ٹھکا نے لگا کر جنوبی ایشیاء کی اس گیم میں حصہ دار بن گئے۔اب نیپا ل نے اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا تو انہوں نے اپنے شاہ بریندرا اور ملکہ ایشوریا کے پورے خاندان کو ختم کر دیا۔مقابلہ یہاں پر نہ رکا۔پاکستان میں محترمہ بینظیر کو شہید کر دیا گیا۔ الزام طالبان پر لگا۔
اب ایک دفعہ پھر ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی اپنے کچھ وزرا سمیت اور بعد میں اہم فلسطینی مہمان اسماعیل ہنیہ ایران میں شہید کر دئیے گئے ہیں۔ انتظار ہے کہ ان کا نتیجہ کیا سامنے آتا ہے؟ اب حال ہی میں ہمارے بنگالی بھائیوں نے اپنی پندرہ سالوں سے وزیراعظم حسینہ واجد کو ملک سے دیس نکالا دے دیاہے۔یہ ایک نئی روایت ہے۔ جنوبی ایشیاء واقعی ایک بدقسمت خطہِ زمین ہے جہاں اس قسم کا گھناؤنا کھیل جاری ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس خطے پر رحم فرمائے۔ آمین!
جنوبی ایشیاء: انوکھے مقابلے
Sep 02, 2024