پیر‘ 26 صفر المظفر1446ھ ‘ 2 ستمبر 2024ء

فضل الرحمان پہلے بھی دھوکہ کھا چکے ہیں‘ حکمرانوں پر اعتماد نہ کریں‘ بیرسٹر گوہر۔ 
یہ مشورہ چونکہ بالکل مفت ہے‘ اس لئے مولانا شاید ہی اس پر کان دھریں۔ کیا بانی پی ٹی آئی اور انکے جماعت کے چھوٹے سے لے کر بڑے تک یہ نہیں جانتے کہ مولانا کے اپنے نظریات اور مفادات ہیں۔ اب وہ جہاں مناسب سمجھیں گے‘ اپنا کارڈ کیش کرائیں گے۔ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ خود اسکے بوجھ تلے آکر اسکے اتحادی بھی دب جاتے ہیں۔ (ق) لیگ کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ لوگ آہستہ آہستہ پرویز الٰہی‘ مونس الٰہی اور (ق) لیگ کو بھول رہے ہیں۔ یہی حال حامد رضا کی سنی اتحاد کونسل کا ہو رہا ہے۔ وہ ہر تقریب میں بن بلائے مہمان کی طرح نظر آتے ہیں اور اجنبی اجنبی سے لگتے ہیں۔ یہ بھی جلد فراموش کر دیئے جائیں گے۔ اب مولانا فضل الرحمان ایسے بھی گئے گزرے نہیں‘  وہ جہاں بھی جائیں گے برابری کی بنیاد پر سودا کریں گے۔ پہلے بھی جن کے ساتھ اتحادی بنے وہ انکی خوشامد کرتے رہتے تھے۔ اب مولانا کی عادت ہو گئی ہے ’’جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا‘‘۔ انکی جماعت میں اتنا دم خم نہیںہے کہ الیکشن میں مؤثر حمایت حاصل کر سکے۔ البتہ اتحادی کی پخ لگا کر وہ خوب فائدے میں رہتے ہیں۔ اب جہاں گڑ ہوگا چیونٹیاں وہاں ہی آئیں گی۔ بہرحال فضل الرحمان نے نئی نئی کامیاب چال چلی‘ وہ ملاقاتیں باتیں پی ٹی آئی والوں سے کر رہے ہیں اور بانی پی ٹی آئی بھی انکے سابقہ ریکارڈ کو بھول کر انہیں واقعی مولانا سمجھنے لگے ہیں۔ لگ یہی رہا تھا کہ مولانا اور کپتان کے درمیان اتحاد ہو جائیگا کیونکہ ملاقاتوں کے کئی دور ہو چکے تھے مگر شاید لین دین پر سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ اور یوں ’’دو چار ہاتھ آئے لب بام رہ گیا‘‘۔ پی ٹی آئی اب مولانا کے بارے میں کیا پہلے والا رویہ اپنائیں گے یا موجودہ میزبانہ انداز چلتا رہے گا جس کا امکان کم ہی ہے۔ اب ایک بار پھر آصف زرداری نے مولانا کو کچھ ایسا منتر پھونکا کہ مولانا کپتان کے سحر سے آزاد ہو گئے اور شہبازشریف کے ساتھ ایک بار پھر گلے لگ گئے کہ 
آتے جاتے ملتے جلتے رہیے گا
آنکھ ملی ہے اک نہ اک دن دل بھی مل جائیگا اپنا
کا درس دے رہے ہونگے۔ 
٭…٭…٭
سمندری طوفان کا خطرہ ٹل گیا‘ رخ عمان کی طرف ہو گیا۔ 
یہ تو قدرت کی مہربانی ہے کہ اسے بدحال پاکستانیوں پر ترس آگیا اور طوفان سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچ کر نکل گیا ورنہ کراچی‘ گوادر‘ پسنی‘ مکران کے ساحلی علاقوں میں رہنے والے کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ سمندری طوفان سے محفوظ علاقوں کی طرف چلے جائیں۔ ابھی صرف تیز ہوائوں نے گھروں کی چھتیں اور لوگوں کے ہوش اڑا دیئے تھے۔ کافی نقصان کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ اب اگرچہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ مگر تیز ہوائوں اور بارشوں سے ہونیوالا نقصان بھی کم نہیں۔ سمندر ابھی تک بپھرا ہوا ہے۔ ملاحوں کو سمندر میں جانے اور عوام کو سمندر میں نہانے سے روک دیا گیا ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ کراچی میں تیز ہوائوں کی وجہ سے سینکڑوں درخت گر گئے ہیں جس سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اب تین دن تک تیز ہوائیں اور بارشیں جاری رہیں گی۔ جس کی وجہ سے سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ سائن بورڈ بھی گر گئے ہیں جبکہ اندرون سندھ متاثرین امداد کے منتظر وہاں سیلاب سے گھرے متاثرین کے حالات زیادہ خراب ہیں۔ سڑکیں‘ پل تو پہلے ہی ریلے میں غتربود ہو چکے ہیں۔ ان کا تو نام و نشان مٹ چکا ہے۔ حکمران اور انتظامیہ شاید موسم بہتر ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ورنہ اب تک تو گھٹنوں سے اوپر پتلون او شلوار اٹھا کر سیلابی پانی میں فی الحال کوئی لیڈر دورہ کرتا نظر نہیں آیا مگر عوام پریشان نہ ہوں‘ جلد ہی یہ ڈرامہ شروع ہونیوالا ہے جس کے بعد فوٹو سیشن اور چند ہزار کا چیک یا ایک چاول‘ چینی اور گھی کے پیکٹ دینے کی تشہیر پر خرچہ کرکے ہمارے رہنما خوب داد سمیٹیں گے۔ اس وقت تک متاثرین صبر سے کام لیں ورنہ سندھ میں تو لوگ کشتیوں کا ازخود انتظام کرکے نہر بنی سڑکوں پر آمد ورفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پانی اترنے کے بعد لوگ پھر ان سڑکوں کو تلاش کرتے پھریں گے کہ وہ کہاں چلی گئیں جو اس وقت سمندر برد ہو چکی ہونگی۔ 
٭…٭…٭
وزیر داخلہ کے بیان سے بلوچستان میں سیاسی پارہ ہائی ہو گیا۔ 
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلہ کا آخری حل ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بات چیت‘ ترغیب و لطف و عنایات سے مل بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالا جاتا ہے۔ اب وزیر داخلہ نے گزشتہ دنوں کوئٹہ میں دہشت گردوں کے حوالے سے بیان میں کہا تھا کہ یہ تو ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ بقول غالب:
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
کچھ سنجیدہ اور کچھ جذباتی رہنماء کہاں کی رباعی کہاں کی غزل اٹھا لائے۔ بات کو پکڑ لیا اور کہا کہ ایوب کے دور میں سرداروں کو قرآن کے نام پر پہاڑوں سے اتارا گیا اور بعد میں سردار نوروز اور انکے بیٹے کو پھانسی دیکر خلاصی کی گئی۔ پھر مشرف کے دور میں نواب اکبر بگتی کی کارروائیوں پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ 71 نہیں ہے‘ ہم آپ کو آپکے ٹھکانے میں اڑتا دیں گے۔ پھر وہی ہوا اور ایک بار پھر طاقت کے استعمال نے حالات بگاڑ دیئے اور کئی ملک دشمن قوتیں اپنی اپنی تنظیمیں بنا کر کارروائی کرنے لگیں‘ جن میں خطرناک عنصر یہ آن ٹپکا ہے کہ کئی سالوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر بین الصوبائی شاہراہ پر سفر کرنے والے پنجابیوں کو گولیاں مار کر قتل کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں‘ بلوچستان میں بدامنی کا ذمہ دار انہیں اور پنجاب کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ لاپتہ افراد کا دکھ سب کو ہے‘ خود پنجاب میں بھی ایسے بے شمار کیس ہیں مگر اسکی آڑ میں ملک دشمن بیانیہ کھڑا کیا گیا ہے۔ اسکے باوجود ہر محب وطن پاکستانی یہی چاہتا ہے کہ جلتی پر تیل نہ چھڑکا جائے۔ افہام و تفہیم سے امن کی راہ ہموار کی جائے۔ کیونکہ بلوچستان کے سب شہر ملک دشمن عناصر کے پراپیگنڈے سے متاثر نہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کا غصہ بجا اور اپنی جگہ ہے۔ انہیں منفی سرگرمیوں میں ملوث عناصر آسانی سے پھانس لیتے ہیں۔ ایس ایچ او کی بجائے اگر وہاں کے نوجوانوں کو دل کھول کر کاروبار کیلئے ہنرمند اور ملازمتیں فراہم کی جائیںتو ایس ایچ او کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اسمبلی کے اجلاس میں عمر بلوچ نے کیا خوبصورت چوٹ لگائی کہ وزیر داخلہ پہلے کچے کے علاقے سے اپنے ایس ایچ او اور بکتر بند گاڑیوں کو بچا  کر نکلیں پھر بلوچستان کی بات کریں۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن