دس سال میں صرف 24 آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود 1200 ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی۔ ان 24 پاور پلانٹس نے گیس، آر ایل این جی اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنا تھی۔ آئی پی پیز اور حکومت کے درمیان جو بھی معاہدے ہوئے وہ قانونی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا ان پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔ دوسری صورت میں حکومت کو عالمی اداروں اور عدالتوں کی طرف سے بھاری جرمانے ہو سکتے ہیں۔ آئی پی پیز میں زیادہ تر پاکستانی کمپنیاں ہیں اور کچھ غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کاجائزہ لیا جائے تو یہ فریقین کے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کسی سے کچھ بھی خریدتے ہیں تو اس شے کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے مگر ان معاہدوں کے تحت آئی پی پیز اپنی کپیسٹی کے مطابق بجلی بنائیں یا نہ بنائیں حتیٰ کہ بالکل بھی نہ بنائیں تب بھی ان کو کیپسٹی پیمنٹ کی صورت میں پوری ادائیگی کی جاتی ہے۔ کسی بھی دکاندار کا ضمیر یہ کیسے گوارا کر سکتا ہے کہ وہ گاہک کو کم مقدار میں شے دے کر کئی گنا زیادہ کی قیمت وصول کر لے اور اگر اس کے پاس شے نہ ہو تو بھی بغیر شے دیے گاہک سے پیسے بٹور لے۔ یہی کچھ کپیسٹی پیمنٹ کی صورت میں ہو رہا ہے۔ جن حکمرانوں کی طرف سے آئی پی پیز کے ساتھ ایسے معاہدے کیے گئے، کیا ایسے ہی معاہدوں کا اطلاق وہ اپنے کاروباروں میں کرتے ہیں ؟ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے تو کاروبار دوسرے دن ہی ڈوبنا شروع ہو جائے گا۔ کپیسٹی پیمنٹ کاسلسلہ جاری رہا تو پاکستان دیوالیہ کی طرف جا سکتا ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ آئی پی پیز کی آمدن پر ٹیکس بھی وصول نہیں کیا جاتا۔ حکومت سنجیدگی سے آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان کا جو جائز منافع بنتا ہے وہی وصول کرنے پر انھیں آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔ کم از کم ملکی آئی پی پیز کے مالکان کو تو اس بات کی سمجھ آ سکتی ہے۔ اگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی ہو جاتی ہے تو بجلی کی قیمتوں یعنی بلوں میں کم از کم نصف کمی ضرور ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) ایسا کر لیتی ہے تو عوام سکھ کا سانس لیں گے جس سے اس کی سیاست بچ جائے گی اور ریاست بھی۔