وفاقی وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم رائٹ سائزنگ کمیٹی کے اہم رکن اور ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے حکومتی پالیسیوں سے دلبرداشتہ ہوکر تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔انھوں نے رائٹ سائزنگ کمیٹی کی رکنیت سمیت 3 مختلف حکومتی کمیٹیوں کے عہدے بھی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ رائٹ سائزنگ کمیٹی کے علاوہ وہ کفایت شعاری کمیٹی اور حکومتی اخراجات کمیٹی کے رکن تھے۔ انھوں نے اپنا تحریری استعفیٰ وزیر خزانہ اور سیکریٹری کابینہ کو ارسال کردیا ہے۔ اپنے بیان میں قیصر بنگالی نے کہا کہ حکومت نے اخراجات میں کمی کے لیے اچھی کوششیں کیں، سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے تینوں کمیٹیوں نے اہم تجاویز بھی دیں۔ اخراجات میں کمی کے لیے 17 ڈویژنز اور 50 سرکاری محکمے بند کرنے کی تجویز دی گئی مگر حکومت نے سنجیدگی سے ان تجاویز پر عمل نہیں کیا اور وہ اس کے برخلاف اقدامات کررہی ہے۔ اخراجات میں کمی کے لیے افسران کی بجائے چھوٹے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے اور محکموں سے گریڈ 17 سے 22 کے افسران کی نوکریوں کو بچایا جا رہا ہے۔ قیصر بنگالی کے مطابق، اگر محکموں سے بڑے افسران کو ہٹایا جائے تو سالانہ 30 ارب کے اخراجات کم ہوجائیں گے جبکہ حکومت گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کی نوکریاں ختم کررہی ہے جس سے معیشت مزید تباہی کی طرف جارہی ہے اور اس وقت پاکستانی معاشی صورتحال کے حساب سے وینٹی لیٹر پر ہے۔انھوں نے انکشاف کیا کہ معاشی صورتحال کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر ادارے قرضے دینے کو تیار نہیں ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مذکورہ حکومتی کمیٹیوں سے ایک ایسے وقت میں استعفیٰ دیا ہے جب ابھی چند روز پہلے ہی بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ ایک درجہ بہتر قرار دی ہے۔ اس سلسلے میں موڈیز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستانی معیشت کا منظر نامہ مثبت ہے جس کے باعث پاکستان کی ریٹنگ سی اے اے ٹو کر دی ہے۔ پاکستان کی لیکوڈٹی صورتحال میں معمولی بہتری بھی ریٹنگ بہتر ہونے کا سبب ہے۔ موڈیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈیفالٹ رسک میں کمی بھی ریٹنگ بہتر ہونے کا سبب ہے۔ اس کے بعد مزید یہ خوش خبری بھی ملی کہ موڈیز انویسٹرز سروس نے پاکستان کے پانچ بینکوں ریٹنگ بھی اپ گریڈ کر دی ہے اور ان بینکوں کی لانگ ٹرم ڈیپازٹ ریٹنگ سی اے اے تھری سے بہتر کر کے سی اے اے ٹو کر دی گئی ہے۔ ریٹنگ ایجنسی نے پانچوں بینکوں کے لیے آؤٹ لک کو مستحکم سے مثبت میں تبدیل کر دیا، یعنی موڈیز کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ بینک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
معاشی حوالے سے جو بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں انھیں سامنے رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کی رقم مل جائے گی اور اس رقم کے حصول کے لیے عالمی ادارے کی پیشگی شرائط پوری کر لی جائیں گی۔ اس سلسلے میںپاکستان نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض رول اوور کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے سعودی عرب سے 1.2 ارب ڈالر قرض کی درخواست بھی کی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے حکومت صرف دوست ممالک سے تعاون کی درخواست ہی نہیں کررہی بلکہ عوام پر بھی ہر طرح سے بوجھ ڈالا جارہا ہے اور عالمی ساہوکار کے کہنے پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی بھی بتدریج ختم کی جارہی ہے۔
ادھر، سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور اداروں کو مل کر فیصلے کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتیں اپنے اخراجات میں کٹوتی اور بچت سے عوام کے ریلیف کے لیے وسائل مہیا کریں۔ نون لیگ کے مرکزی رہنماؤں کا اجلاس لاہور میں واقع مرکزی سیکرٹریٹ میں ہوا جس کی صدارت نواز شریف نے کی۔ اجلاس میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، اہم وزراء، پارٹی رہنماؤں اور وفاقی و صوبائی سرکاری افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال، عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات، بلدیاتی انتخاب اور پارٹی کو سر گرم کرنے کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
نون لیگ کی حکومت مرکز اور پنجاب میں معاشی بہتری کے لیے جو اقدامات کررہی ہے ان کی اہمیت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی جیسے سنجیدہ ماہر معاشیات کا حکومتی کمیٹیوں سے استعفیٰ یہ بتاتا ہے کہ بہت سے ایسے مسائل موجود ہیں جن کے حل کے لیے حکومت مطلوبہ اقدامات سے گریز کررہی ہے۔ قیصر بنگالی کے بیان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حکومت بیوروکریسی کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے ہی پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے کہ اب ہم غیر ملکی اداروں اور دوست ممالک کے مالی تعاون کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو ہی نہیں سکتے۔ آج نہیں تو کل حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ ملک کی معیشت بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی بے تحاشا مراعات و سہولیات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ جب تک یہ فیصلہ نہیں کیا جاتا تب تک معیشت کے مستحکم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیں گے۔