چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ خداکاخوف کریں، دو بچوں کووراثت سے نکال دیا، کچھ شریعت کاڈر ہونا چاہیے ،جیسے ہی75سالہ شخص مرتا ہے تو دعویٰ آجاتا ہے۔ پاکستان بار کونسل کوایسے وکیلوں کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے جو لوگوں کو وراثت سے محروم کرنے کے حوالے سے مقدمات لڑتے ہیں، ہمیں ساری چیزیں پتہ ہیں کہ کیسے یہ مقدمہ بازی ہوتی ہے،بے بنیاد مقدمہ بازی کی وجہ سے عدالتوں کا وقت ضائع ہوتا ہے اور زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ غیر ضروری مقدمہ بازی پورے عدالتی نظام کو متاثر کررہی ہے اور یہ مقدمات سپریم کورٹ تک آرہے ہیں۔ وکیل سپریم کورٹ میں کھڑے ہیں وہ سوالوں کے جواب دیں گے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 75سال شخص ایک بیٹے اورایک بیٹی کو وراثت سے کیوں محروم کرے گا اور دیگر 7بیٹوں کو تحفہ دے گا، کسی بھی تحفہ کی پہلے تفصیل بتائی جاتی ہے، پھر قبولیت ہوتی ہے، 75سال بزرگ ایک بیٹے اورایک بیٹی کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دے رہا یہ نیچرل کنڈکٹ نہیں ہے،دستخط بھی نہیں کئے۔عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردی اور درخواست گزاروں کو کیس کاپورا خرچ اداکرنے کاحکم دے دیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 3رکنی بینچ نے سوموار کووراثت کے تنازعہ پر سلطان روم اوردیگر کی جانب سے بخت کرم اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل غلام محی الدین ملک شدیدعلالت کے باعث پیش نہ ہوسکتے تاہم ان کے معاون وکیل محمد فاروق ملک نے پیش ہوکردلائل دیئے۔ چیف جسٹس کامعاون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کیس میں وکیل ہیں کہ نہیں ، تقریرنہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ 2مرتبہ پہلے بھی اس کیس میں التوالے چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سول کورٹ نہیں کہ کوئی بھی وکیل آکر کھڑا ہوجائے۔درخواست گزار وں کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد معاون وکیل نے دلائل دیئے۔ وکیل نے کہا کہ 16اگست2004کو گفٹ کیا گیا اورتمام جائیداد گفٹ کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گفٹ کیا تھا ، گاڑی تھی یاکوئی جائیداد تھی، کیا چیز تھی۔ وکیل نے کہا کہ شاہ روم ڈونر ہے جس نے اپنے 7بیٹوں کو تمام جائیداد تحفہ دی۔وکیل نے کہا کہ شاہ روم کاستمبر 2005میں تقریباً75سال کی عمرمیں انتقال ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سارے بچے ہیں تووہ سارے ورثاء ہیں۔ وکیل نے کہا کہ ایک بیٹے کو حصہ نہیں دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بیٹی بھی ہے ، عورت کی آپ کے حساب سے کوئی حیثیت نہیں ،اِس کانام نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ڈونر کوعدالت میں پیش کیا۔ وکیل نے کہا کہ 19جولائی 2006کو دعویٰ دائر ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 2004میں ڈیڈ ہوئی تومیوٹیشن کیوں نہیں کروایا، شاہ روم ڈیڈ لکھ سکتے تھے لیکن میوٹیشن نہیں لکھ سکتے تھے، کسی سے ڈیڈکی تصدیق کروائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تحفہ قبول کرنے کے دستخط کدھر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل سپریم کورٹ میں کھڑے ہیں وہ سوالوں کے جواب دیں گے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ تھینک یوویری مچ! کوئی کیس نہیں بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی تحفہ کی پہلے تفصیل بتائی جاتی ہے، پھر قبولیت ہوتی ہے، 75سال بزرگ ایک بیٹے اورایک بیٹی کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دے رہا یہ نیچرل کنڈکٹ نہیں ہے،دستخط بھی نہیں کئے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 3نہیں 100لائنیں پڑھیں لیکن سوالوں کے جواب بھی دے دیں، تقریر نہ کریں ، پڑھیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اوکے تھینک یو ویری مچ، اب ہم آرڈر لکھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ بخت کرم اور مسمات باچاعزت کوحصہ نہیں دیا، 16اگست2024کو تحفہ دیا گیا، شاہ روم ستمبر2005میں 75سال کی عمر میں فوت ہوا،تحفہ قبول کرنے کاکوئی ثبوت نہیں، زمین کامخصوص طور پر کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ کون سی زمین ہے، پہلے صفحہ پر تحفہ دینے والے کے دستخط نہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 75سال شخص ایک بیٹے اورایک بیٹی کو وراثت سے کیوں محروم کرے گا اور دیگر 7بیٹوں کو تحفہ دے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ غیر ضروری مقدمہ بازی پورے عدالتی نظام کو متاثر کررہی ہے اور یہ مقدمات سپریم کورٹ تک آرہے ہیں۔ چیف جسٹس نے درخواست خارج کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو کیس کاپورا خرچ اداکرنے کاحکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خداکاخوف کریں، دو بچوں کووراثت سے نکال دیا، کچھ شریعت کاڈر ہونا چاہیے ، جیسے ہی75سالہ شخص مرتا ہے تو دعویٰ آجاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کوایسے وکیلوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو لوگوں کو وراثت سے محروم کرنے کے حوالے سے مقدمات لڑتے ہیں، ہمیں ساری چیزیں پتہ ہیں کہ کیسے یہ مقدمہ بازی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر کوئی اور بات کہی توجرمانہ کردیں گے۔