تنویر حسین
چیف جسٹس صاحب کا بحال ہونا نیک شگون ہے اور قوم نے دھرنوں‘ بائیکاٹوں‘ لاٹھیوں اور آنسو گیس کے شیلوں کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے۔ قوم ان کی بحالی کے بعد اب اپنی بحالی کے مژدے سننے کی منتظر ہے۔ ان میں سے ایک طبقے کو جو طبقہ فکر و ذکر بھی ہے۔ میری مراد ایڈہاک لیکچرر ہیں جن کی متاع عزیز محض طالب علم ہوتے ہیں‘ جو بوقت ضرورت ان سے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ خراجِ عزت بھی وصول کرتے رہتے ہیں۔ اُستاد ان کے نخرے برداشت کرتا ہے۔ لیکن اہلِ ارباب اس طبقہ سفید پوش کا نان و نفقہ برداشت کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اگر چیف جسٹس صاحب بحال نہ ہوتے تو ان بے چاروں کے بال بچے ابھی تک بے حال ہی ہوتے۔ تعلیم و تدریس کے میدان میں تحقیق ہمیشہ بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے اور پاکستانی محققین وطنِ عزیز اور غیر ملکی تحقیق و تدریسی اداروں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن حکومتوں کی موجودہ باہمی چپقلش اور عدم استحکام کی بدولت مختلف سطحوں پر تحقیقی پروگرام تعطل کا شکار ہیں حتیٰ کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘ جس نے مشرف کے دورِ جبر میں اربوں کی گرانٹس اس عظیم مقصد پر خرچ کیں اور مثبت نتائج بھی حاصل کئے۔ عوامی حکومت کے اس دور میں سانس لینے سے بھی معذور نظر آتی ہے اور پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے اسکالرز غیر ملکوں میں بنیادی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ڈگریاں سینوں پر سجائے پٹرول پمپوں اور ریڑھیوں تانگوں کے کھینچنے کی زینت بنے ہوئے ہیں اور پاکستان میں موجود منتظر محققین اپنی عمرِ مستعار کو ایک جگہ پر ہی ٹھہر جانے کی التجائیں کر رہے ہیں کیونکہ اگر پوسٹ ڈاکٹریٹ کے یہ سکالرز موجودہ پروگرام میں اپنے اپنے پروجیکٹ پر نہ جا سکے تو عمر کے اگلے برس تو وہ اوورایج کا تمغہ لے کر ہمیشہ مذکورہ کورس کی آرزو ہی کر سکیں گے۔ میری حکام بالا سے اور خصوصاً عزت مآب چیف جسٹس صاحب سے التجا ہے کہ اس طبقۂ منتظر کے انتظار کو بارور فرما کر پاکستانی اسکالرز کی تحقیقی تشنگی کی سیریابی کا انتظام فرما دیں کیونکہ موجودہ حالات میں مستقبل قریب میں ارباب حکومت تو اپنی کرسیوں اور سیاستوں میں مشغول ہیں اور جب ان کی طرف سے یہ تریاق عراق سے آئے گا تو سانپ کے ڈسے ہوئے مر چکے ہوں گے۔
چیف جسٹس صاحب کا بحال ہونا نیک شگون ہے اور قوم نے دھرنوں‘ بائیکاٹوں‘ لاٹھیوں اور آنسو گیس کے شیلوں کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے۔ قوم ان کی بحالی کے بعد اب اپنی بحالی کے مژدے سننے کی منتظر ہے۔ ان میں سے ایک طبقے کو جو طبقہ فکر و ذکر بھی ہے۔ میری مراد ایڈہاک لیکچرر ہیں جن کی متاع عزیز محض طالب علم ہوتے ہیں‘ جو بوقت ضرورت ان سے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ خراجِ عزت بھی وصول کرتے رہتے ہیں۔ اُستاد ان کے نخرے برداشت کرتا ہے۔ لیکن اہلِ ارباب اس طبقہ سفید پوش کا نان و نفقہ برداشت کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اگر چیف جسٹس صاحب بحال نہ ہوتے تو ان بے چاروں کے بال بچے ابھی تک بے حال ہی ہوتے۔ تعلیم و تدریس کے میدان میں تحقیق ہمیشہ بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے اور پاکستانی محققین وطنِ عزیز اور غیر ملکی تحقیق و تدریسی اداروں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن حکومتوں کی موجودہ باہمی چپقلش اور عدم استحکام کی بدولت مختلف سطحوں پر تحقیقی پروگرام تعطل کا شکار ہیں حتیٰ کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘ جس نے مشرف کے دورِ جبر میں اربوں کی گرانٹس اس عظیم مقصد پر خرچ کیں اور مثبت نتائج بھی حاصل کئے۔ عوامی حکومت کے اس دور میں سانس لینے سے بھی معذور نظر آتی ہے اور پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کے اسکالرز غیر ملکوں میں بنیادی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ڈگریاں سینوں پر سجائے پٹرول پمپوں اور ریڑھیوں تانگوں کے کھینچنے کی زینت بنے ہوئے ہیں اور پاکستان میں موجود منتظر محققین اپنی عمرِ مستعار کو ایک جگہ پر ہی ٹھہر جانے کی التجائیں کر رہے ہیں کیونکہ اگر پوسٹ ڈاکٹریٹ کے یہ سکالرز موجودہ پروگرام میں اپنے اپنے پروجیکٹ پر نہ جا سکے تو عمر کے اگلے برس تو وہ اوورایج کا تمغہ لے کر ہمیشہ مذکورہ کورس کی آرزو ہی کر سکیں گے۔ میری حکام بالا سے اور خصوصاً عزت مآب چیف جسٹس صاحب سے التجا ہے کہ اس طبقۂ منتظر کے انتظار کو بارور فرما کر پاکستانی اسکالرز کی تحقیقی تشنگی کی سیریابی کا انتظام فرما دیں کیونکہ موجودہ حالات میں مستقبل قریب میں ارباب حکومت تو اپنی کرسیوں اور سیاستوں میں مشغول ہیں اور جب ان کی طرف سے یہ تریاق عراق سے آئے گا تو سانپ کے ڈسے ہوئے مر چکے ہوں گے۔