بادِ بحالی

مبارک باشد ! بحالیوں کی بادِ بہاری چل نکلی ہے۔ افتخار محمد چودھری چیف جسٹس آف اسلامی اور جمہوریہ پاکستان کی بحالی کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں میاں محمد شہبازشریف کی حکومت بھی بحال ہو گئی ہے اسے آپ مسلم لیگ ن کی حکومت کی بحالی بھی کہہ سکتے ہیں کہ اصل میں دونوں ایک ہی ہیں چیف جسٹس کی بحالی کے ساتھ دیگر دس جج صاحبان بھی بحال ہو گئے تھے اور میاں صاحب کی حکمرانی کی بحالی کے ساتھ سستی روٹی بھی بحال ہو جائے گی۔ انصاف سستا‘ روٹی سستی اور گھوڑے مہنگے‘ وہی حکومت کی سواری کے گھوڑے۔ سُنا ہے سپریم کورٹ کے جس بنچ کے مختصر فیصلے سے حکومت پنجاب بحال ہوئی ہے اس میں دو جج صاحبان وہ بھی شامل تھے جن کے فیصلہ کے نتیجے میں وہ حکومت ختم ہوئی تھی اس بنچ کے نئے فیصلے کو سراہا بھی گیا ہے اور تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ شریف برادران کے ماہرین قانون نے اس بنچ پر اعتماد کا بھی اظہار کیا تھا اور مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت بنفسِ نفیس فیصلہ کے وقت اس کمرۂ انصاف میں موجود تھی وہ دو جج صاحبان وہی تھے جنہیں پی سی او جج کہا جاتا رہا تھا تو اس تسلیم و رضا کے حوالے سے یہ بھی تو کہا جا سکتا ہے بلکہ کہنا لازم ہو گیا ہے کہ باقی پی سی او جج صاحبان بھی بحال یا ان سب پر بھی شریفین کا اعتماد بحال۔ کتنی بابرکت ثابت ہوئی ہے کالا کوٹ برادری کی تحریک انصاف ‘ صدر مکرم نے اپنے پارلیمنٹ سے خطاب خاص میں ’’آؤ ماضی کی غلطیاں بھلا کر دوست بن جائیں پھر سے‘‘ کا جو پالیسی اعلان کیا تھا اس کے بعد سے میاں محمد نوازشریف صاحب کے اعلانات اور بیانات کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں یعنی شریف برادران اور صدر آصف علی زرداری کے درمیان اعتماد بھی بحال ہو گیا ہے یا ہو رہا ہے اگر ایسا ہے یا ہو جائے تو اسے بھی اچھا ہی اور صرف اچھا ہی کہنا چاہئے۔ جب کالا کوٹ برادری ملک کے کونے کونے میں لانگ مارچ اور دھرنا کی آزمائش میں داخل ہونے کو کمر بند باندھ رہی تھی تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے ترجمان نے بتایا تھا کہ سیکورٹی کونسل کو بھی تشویشناکی ہوتی جا رہی ہے وہ بھی پاکستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں بہت فکر مند ہے تو گویا بحالیوں کی جو بادِ بہاری چل نکلی ہے اس کی خوشگواری اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ایوانوں تک میں محسوس کی گئی ہوگی۔ چودھری برادران سے ہم اس خوشگواری پر اظہار افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ روٹی تو ظاہر ہے سستی ہو ہی چکی ہوگی شریف برادران سے ہماری درخواست ہے کہ وہ چودھری برادران کو بھی اپنے جاتی عمرہ کا ’’عمرہ‘‘ کرا ہی دیں اب مگر ہاں سالن میں مرچیں تیز نہ ڈالیں۔ اور اگر کبھی گورنر پنجاب تعاون کا ’’احرام‘‘ باندھ کر ان کی حکمرانی کا طواف کرنے آ جائیں تو ان کیلئے نمک تیز رکھیں۔ سنا ہے جب بادِ بہاری چلتی ہے تو اسلام آباد کے بعض باسیوں کی سانس کا توازن خراب ہو جاتا ہے ایسے موسم میں انہیں سانس لینے میں دشواریاں درپیش ہوتی ہیں اور وہ راتوں کو پرسکون کھراٹے بھی نہیں لے سکتے اپنا اپنا مقدر ہے وہی بادِ بہاری جو نارمل لوگوں کیلئے پیغام فرحت و شادمانی لاتی ہے ان بے چاروں کے دکھوں اور امراض کی شدت میں اضافہ کر دیتی ہے ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ بحالیوں کی اس بادِ بہاری سے جن اہلِ اسلام آباد کو پُرسکون کھراٹے لینے میں دشواریاں درپیش ہیں بارک حسین اوباما ان کی صحت کا بھی کچھ خیال کرے۔ پاکستان کے مجبور اور معصوم عوام کا نہیں تو ان کے خواص کا ہی خیال کرے اس میں اوباما کا اپنا بھی فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ان کا خیال کریں جو ’’کربھلا تیرا بھلا ہوگا‘‘ گانے میں بھی دشواری محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی پڑھتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کا میاں نوازشریف صاحب پر اعتماد بھی بحالی کے رستے تلاش کرنے لگا ہے۔ خود میاں صاحب کے نازو انداز بھی کچھ ایسے ہی دکھائی دینے لگے ہیں کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔ کیا شریف برادران بحالیوں کی اس بادِ بہاری سے لطف اندوز ہونے سے کچھ وقت نکال کر جائزہ لیں گے کہ جن جن اہلِ قیادت و سیادت پر امریکہ اعتماد کرتا رہا ہے ان کا انجام کیا ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ امریکہ تو وہ عاشق یا معشوق ہے جس کی نہ دوستی کبھی اچھی ثابت ہوئی ہے نہ دشمنی بلکہ دشمنی سے دوستی اس حسینہ کی زیادہ جان اور آن لیوا ثابت ہوتی ہے۔ بحالیوں کی اس لہربحر میں بنیادی کردار کس جذبہ کا رہا ہے۔ اس بارے میں بھی غور فرمائیں۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے طویل مراحل میں اس کے قائدین کرام تحریک کے کامیاب ہو جانے سے قوم کو جن کامیابیوں اور کامرانیوں کی خوشخبریاں سناتے رہے ہیں ان کی تفصیل بہت طویل ہے۔ وہ بتاتے رہے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری بڑھ جائے گی‘ ملکی صنعتوں کی پیداوار بڑھ جائے گی‘ قوم کے ادارے بیچنے والوں کا احتساب شروع ہو جائے گا‘ امن و امان قابل رشک ہو جائیں گے‘ کھیتوں کی پیداوار بڑھ جائے گی اور مرغیوں کے انڈوں کا وزن تک بہت زیادہ ہو جائے گا۔ میاں نوازشریف روز رفتہ بتا رہے تھے کہ وہ عمل شروع ہو گیا ہے اور عدلیہ کی آزادی کے فیوض و برکات کا نزول شروع ہو چکا ہے اگر ایسا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے کہ میاں نوازشریف نے بتایا ہے تو پھر امریکہ کے احسان اور جوتیاں اٹھانے کی بھی کوئی مجبوری نہیں ہونا چاہئے ہماری کسی بھی سطح کی قیادت اور سیادت کو ایسے باہمی اعتماد کی بحالی سے پرہیز ہی برتنا چاہئے اس اعتماد کی زیادتی سے کسی ایسی بدہضمی کا شکار ہوتے دیکھے گئے ہیں اہل قیادت و سیادت جس کا علاج خود امریکی ماہرین کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے باعتماد اہل قیادت کی فہرست بنائیں تو کتنے نمبر پر آیا کرتا تھا صدام حسین ؟ اعتماد کی کتنی اونچی مسند پر قابض ہوا کرتا تھا حامد کرزئی؟ وردی شاہ کا نام ہم اس لئے نہیں لے رہے کہ اس سے این آر او کی توہین عدالت کا خدشہ ہے۔ بحالیوں کی بادِ بہاری کی مستیوں کے اس ماحول میں ہم این آر او کا ذکر کر کے شریف برادران اور ان کے برادر خورد کے درمیان اعتماد کی بحالی کی توہین نہیں کرسکتے۔ ہم کہنا صرف یہ چاہتے ہیں کہ ’’امریکہ کا جو یار ہے‘ بیمار ہے بیمار ہے‘‘ بحالیوں کی خوشگوار بادِ بہاری سے اس کے کھراٹوں کا سکون بھی بیمار ہی بتایا جا رہا ہے‘ بادِ بہاری بھی اس کیلئے بادِ بیماری ثابت ہونے لگی ہے۔ اس بیماری کے اعتماد سے ہوشیار رہیں اور اس قوم کی عزتِ نفس کی بحالی کی بھی کوئی تدبیر کریں اگر ان بحالیوں سے ملک و قوم کی بدحالیوں میں کوئی کمی نہ آئی تو یہ بحالیاں چند افراد کی ہی خیال کی جائیں گی اگر ایسے اہل بحالی واقعی ہم میں سے ہی ہیں تو پھر وہ اپنی خوشیوں میں ہمیں بھی اہلِ پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوئی تدبیر کریں۔ اللہ توفیق دے‘ ثم آمین

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...