شاہِ صحافت اور سیاست!

Apr 03, 2011

عائشہ مسعود
مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں کسی نے فرط جذبات میں قائد اعظم کو مخاطب کر کے ”شاہِ پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگا دیا تھا۔ قائد اعظم نے جواباً کہا تھا .... ”دیکھئے آپ لوگ اس قسم کی باتیں نہ کریں ‘ پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہو گا“ .... مگر پھر کئی بادشاہ سامنے آئے اور ہر بادشاہ کے سامنے ”شاہ“ کا آنا بھی ضروری ہوتا چلا گیا ‘ بقول فیض
ہم نے داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر کا انتظار تو نہیں کیا تھا نا.... اور پھر یہ ملک محض زمین کا ٹکڑا بھی تو نہیں ہے۔ ریڈ انڈینز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی نظر میں زمین سودا‘ پراپرٹی یا منافع نہیں ہے بلکہ زمین وسیلہ حیات‘ ایک ضابطہ اور اثاثہ ہے۔ ریڈ انڈین فلسفی چیف جرونومو نے لکھا تھا ....
مجھے سورج نے تمازت بخشی
تیز ہوا¶ں نے ٹھہرنا سکھایا
اور درختوں کی چھا¶ں نے پناہ دی
میں ہر جگہ برتر احساس کے ساتھ موجود ہوں !!
قائد اعظم نے ہمیں یہ زمین وسیلہ حیات‘ ایک ضابطہ اور اثاثہ کے طور پر دی دی تھی اور جس کو یہ احساس ہو گا وہ برتر احساس کے ساتھ ہی موجود رہے گا اور میں جن شخصیت سے یادداشتوں کی کتاب ”جب تک میں زندہ ہوں“ تحریر کرتے وقت محو گفت و شنید ہوا کرتی تھی انہیں سچ مچ پاکستان کے سورج نے ہی تمازت بخشی ہے اور دور آمریت کی تیز ہوا¶ں کے ساتھ مقابلے نے ہی ٹھہرنا سکھایا ہے اور پھر وطن کے درختوں کی چھا¶ں نے انہیں اپنی پناگاہوںمیں رکھا اور اسی لئے آج وہ برتر احساس کے ساتھ ہر جگہ موجود ہیں۔ انہیں پسند نہیں ہے کہ انہیں ”بابا“ کہا جائے ‘ مگر بادشاہوں سے ٹکر لینے والے کو ”شاہ صحافت“ تو کہا جا سکتا ہے ‘ میں نے کتاب میں لکھا تھا کہ ”مجید نظامی اپنے مزاج کے خلاف باتوں پر کبھی بھی صلح جوئی نہیں کر سکتے ‘ عموماً ایسے افراد کے لئے ضدی اور انتہا پسند ہونے کا الزام آتا ہے“ ....اور اب تو یہ الزام سب مسلمانوں کے سر پر آتا چلا جا رہاہے۔ کیونکہ معاملہ تو اپنے مزاج کے خلاف اور ان کے مزاج کے مطابق باتوں پر صلح جوئی اختیار کرنے کا ہے اور مجید نظامی ہوں یا پھر کوئی بھی مسلمان .... شر کی مدافعت کے لئے آسان راستوں پر تو نہیں چل سکتے اور مجید نظامی نے تو عمر بھر آسان رستہ اختیار کیا ہی نہیں اور اسی لئے بنگالی مدیر بھی ڈھاکہ میں اس وقت ان کے عاشق ہو گئے تھے کہ جب ایوب خان نے مدیران جرائد کو بلایا ہوا تھا اور آتے ہی کہا تھا.... میں جانتا ہوں اخبار کیا ہے ؟ اور اخبار فروشی ایک کاروبار ہے‘ آپ کو اس کا احساس رہنا چاہئے .... تو مجید نظامی نے کہا .... جناب صدر ! ان دنوں آپ کے صاحبزادے بڑے وسیع کاروباروں میں حصہ لے رہے ہیں اور بڑے کامیاب جا رہے ہیں۔ اگر اخبار نکالنا اور اسے چلانا بھی صرف کاروبار ہی ہے تو آپ اپنے صاحبزادے گوہر ایوب سے کہیں وہ ایک اخبار بھی نکال لیں‘ آپ کو اس کاروبار کا پتہ چل جائے گا اور پھر ذرا توقف سے مجید نظامی نے دھیمے لہجے میں کہا .... یہ شیوہ پیغمبری ہے ! .... اور یہ سچ ہے کہ اگر اخبار نکالنا صرف کاروبار ہوتا تو آج ان سارے بادشاہوں کی اولادیں پراپرٹی یا دیگر کاروبار میں پیسہ خرچ کرنے کی بجائے اخبار چلا رہے ہوتے .... مگر یہ مجید نظامی کا شیوہ پیغمبری ہے کہ جس کی وجہ سے بے انتہا مشکلات کے باوجود نوائے وقت کے چاروں شہروں سے بھی ایڈیشن جاری ہوئے اور انہوں نے اپنے بھائی حمید نظامی کا انگریزی اخبار کا خواب بھی پورا کیا اور نیشن جاری کیا .... ہفت روزہ فیملی اور ہفت روزہ ندائے ملت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پھول جیسے بچوں کے لئے ماہنامہ ”پھول“ بھی نکالا اور یوں قائد و اقبال کے افکار کو لے کر کثیر الاشاعتی قومی پالیسی کا حامل ادارہ تشکیل دیا مگر صحافت سے سیاست اس لئے علیحدہ نہ کر سکے کہ کہیں صرف چنگیزی ہی باقی نہ رہ جائے .... مجید نظامی نے یحییٰ خان کے دور میں اس تقریب میں شرکت نہیں کی تھی کہ جس میں انہیں ”ستارہ امتیاز“ دیا جانا تھا مگر بعد میں ایڈیٹرز کو یاد کرنے کے ایک مرحلے کے دوران یحییٰ خان کے پریس آفیسر قاضی سعید نے لان میں آ کر کہا .... آپ کو صدر یاد کر رہے ہیں‘ مجید نظامی اندر گئے تو یحییٰ خان نے دروازہ کھول کر ستارہ نکالا اور ان کے گلے میں ڈال دیا۔ حالانکہ مجید نظامی کے دل میں اصولوں کی وہ مشعل پہلے سے ہی روشن تھی کہ جو سدا فروزاں رہی‘ ان کی آنکھیں اس ستارے سے پہلے ہی ستارہ آنکھیں تھیں کہ جن میں تحریک پاکستان کے مقصد کی روشنی جگمگاتی رہتی ہے۔ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری خوش قسمت ہیں کہ ایوان صدر میں مجید نظامی نے ان سے آل پاکستان نیوز پیپزر سوسائٹی کی تقریب میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ لے لیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک میں جمہوری حکومت کے دلدادہ ہیں چاہے‘ ٹوٹی پھوٹی ‘ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو مگر اسے آمریت سے بہتر سمجھتے ہیں ‘ مگر کاش حکمران بادشاہ بننے کی بجائے عوام کے خادم بن کر رہیں تو جمہوریت بھی اپنے لولے لنگڑے سراپے سے نکل آئے۔ مجید نظامی کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے تحریک پاکستان میں حصہ لینے پر ”مجاہد پاکستان“ کا خطاب دیا تھا‘ آج ”مجاہد پاکستان“ کی سالگرہ کے موقع پر اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ہم انہیں ”شاہ صحافت“ کہہ کر یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں عمر خضر عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
اپنا خیال رکھیے گا۔
مزیدخبریں