نگران وزیراعلیٰ پنجاب ،جناب نجم سیٹھی کی چار رُکنی کابینہ نے حلف اُٹھا لِیا ہے۔ مجھے کئی دوستوں نے فون پر کہا کہ۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟ 2کروڑآبادی والے صوبہ سندھ کی کابینہ میں 17ارکان ہےں، لیکن 12کروڑ والے، صوبے کی کابینہ میں، صِرف 4ارکان؟۔ مَیں نے عرض کِیا کہ یہ تو سیٹھی صاحب کی۔ ”آپس کی بات“ ہے۔ مَیں تو دخل نہیں دے سکتا۔ مَیں نے، برادرم سعید آسی سے بھی۔” آپس کی بات“۔ یعنی آف دی ریکارڈ۔ گفتگوکی تھی، لیکن وہ اُسے اپنی۔ ”بیٹھک “۔ میں آن دی ریکارڈ لے آئے۔ اب میرے بعض دوست ، میرا ریکارڈ لگا رہے ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔۔۔
”مَیں نے، جو گیت ، تیرے پیار کی خاطر، لِکھّے
آج اُن گِیتوں کو، بازار، میں لے آیا ہُوں“
تو صاحبو!۔ مَیں نے جو پیار کا گِیت سُنایا تھا، اُسے مَیں نہیں، بلکہ سعید آسی صاحب، بازار میں لے کر آئے ہیں۔ اب مَیں 84سال کی عُمر تک، نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب بننے کی۔ ”آس“۔ لگا سکتا ہُوں، لیکن اگر، اُڑتے اُڑتے، آس کا پنچھی، دُور اُفق میں ڈُوب گیا تو، مَیں کیا کر سکتا ہُوں۔ محترم مجید نظامی کو وزیرِاعظم نواز شریف نے، مملکت کی صدارت کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے، معذرت کر لی تھی۔ یونان کا درویش فلسفی، دیو جانس کلبی۔ فُٹ پاتھ پر بیٹھا، دھُوپ سینک رہا تھا کہ،گھوڑے پر سوار، سکندرِاعظم وہاں پہنچا اور بڑے احترام سے بولا کہ۔ ”اے بزرگ ترین ہستی! میرے لائق کوئی خدمت ہو تو مَیں حاضر ہوں!“۔ درویش نے، سکندرِ اعظم کی طرف دیکھے بغیر کہا کہ۔ ”دھُوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جاﺅ اور مناسب یہی ہے کہ مجھے تنہا چھوڑ دو!“۔ مُغل بادشاہ جہانگیر نے حضرت میاں مِیر صاحب لاہوریؒ کو مدعو کیا اور بڑے ادب سے بولاکہ۔ ”مجھے کوئی خدمت بتائیں!“۔ حضرت میاں میر صاحبؒ نے کہا کہ۔ ”خدمت یہی ہے کہ آپ آئندہ مجھے ملاقات کی زحمت نہ دیں!“۔ مَیں بعض اوقات سوچتا ہوںکہ، پاکستان کے ہر صدر یا وزیرِ اعظم کے مدعو کرنے پر، ڈیڑھ سے دو ہزار مشائخ ۔ اسلام آباد کیوں پہنچ جاتے ہیں؟۔ اور بہت سے پِیر صاحبان اور گدّی نشین، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی رُکنیت اور وزارت کی خواہش کر کے، دُنیا دار حُکمرانوں کے ماتحت کیوںبن جاتے ہیں؟۔
ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ ۔ ”بادشاہ کی قُربت حاصل کرنے کے لئے، کسی شخص میں، کیا کیا خوبی ہونا چاہیے؟“۔ تو جواب مِلا کہ ۔ ”تین خوبیاں!“۔ پوچھا ۔”کون کون سی خوبی؟“۔ تو جواب مِلا کہ ۔ 1۔ بادشاہ کی قُربت کا خواہش مند، بہت پڑھا لِکھا اور دانشور ہو، تاکہ وہ بادشاہ کو عِلم و حِکمت کی باتوں سے آگاہ کرے 2۔وہ بہت مالدار ہو کہ، بادشاہ کے لئے اپنے گھر میں دعوتوں کا اہتمام کرے اور اُسے تحفے تحائف دے اور 3۔وہ بہت بہادر اور جنگ جُو ہو کہ، جب کوئی غنیم بادشاہ کی سلطنت پر چڑھ دوڑے تو وہ بادشاہ کی بادشاہت کے تحفظ کے لئے ، میدانِ جنگ میں اپنی مردانگی کے جوہر دِکھائے “۔ سوال کنندہ شخص نے کہا کہ ۔ جو شخص پڑھا لِکھا ، مالدار اور بہادر بھی ہو ، وہ اپنی جگہ خُود بادشاہ ہے، پھِر وہ کسی دوسرے بادشاہ کا درباری کیوں بنے؟۔ جناب مجید نظامی اپنی مملکت کے بادشاہ تھے۔ ہیں۔اور۔ انشاءاللہ تا حیات رہیں گے ، چنانچہ انہوں نے(68سال کی عُمر میں) مملکت ِ خداداد ِ پاکستان کی بادشاہت قبول نہیں کی۔ جناب نجم سیٹھی بھی، اپنی اہلیہ محترمہ جُگنو محسن کے ساتھ، اپنی مملکت کے تخت پر رونق افروز تھے، لیکن وہ ۔ ”تخت لہور“۔ پر بیٹھ گئے ۔ میرا خیال ہے کہ سیٹھی صاحب نے، نگران وزیرِ اعلیٰ بن کر، صدر آصف علی زرداری کے ۔ ”روحانی والد“۔ ذُوالفقار علی بھٹو اور میاںنواز شریف کے۔ ”روحانی والد“۔ جنرل ضیاءاُلحق اور خود میاں نواز شریف سے، انتقام لِیا ہے کہ، جناب نجم سیٹھی کو، ذُوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءاُلحق اور میاں نواز شریف کے دَور میں سنگین مقدمات بنوا کر ، جیل بھجوا یا گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ، صدر زرداری اور میاں نواز شریف نے، ایک دوسرے کے ۔ ”روحانی والد“۔ سے انتقام لِیا ہو۔
پُرانے زمانے میں، ہندوستان پر حملہ کرکے، اپنی حکومت بنانے والے جنگ جُو، اپنی اپنی بیورو کریسی ساتھ لاتے تھے، لیکن اپنی اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے اُنہیں با صلاحیت ٹیکنو کریٹس کی بھی، ضرورت ہوتی تھی۔ ضلع لاہور کا راجا ٹوڈر مَل بھی ،ایک ٹیکنوکریٹ تھا جو مُغل بادشاہ نصیرالدّین ہمایوں، اُس کے بعد شیر شاہ سُوری اور پھر اکبرِ اعظم کا وزیرِ مالیات رہا۔ ہمارے حُکمران، اپنے وفادار ساتھیوں سے زیادہ، اُن اصحاب کو زیادہ اہمیت دیتے ر ہے ہیں، جو اُنہیں نقصان پہنچا سکتے ہوں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آکر پیپلز پارٹی کے بانی سیکرٹری جنرل، جے رحیم کو ایف ایس ایف کے اہلکار بھیج کر پٹوایا۔ اور پارٹی کے تین بانی ارکان مختار رانا، معراج محمد خان اور حنیف رامے کو چار چار سال کے لئے جیل بھجوایا اور نادیدہ قوّتوں کی سفارش پر، نواب صادق حسین قریشی کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنا دیا تھا۔ جنہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک میں، بھٹو صاحب پر، دوبار حملہ کروایا تھا۔
ذُوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاءاُلحق کو، سات آٹھ سینئر جرنیلوںپر ترجیح دی۔اور اُس کے نتیجے میں پھانسی پا گئے ۔ محترمہ بےنظیر بھٹو نے اپنے ساتھ جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے ،نوابزادہ نصر اللہ خان کو نظر انداز کر کے، غلام اسحٰق کی صدارت پکّی کر دی اور معزول ہُوئیں ، وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں، اگر محترمہ۔” بابائے سوشلزم “۔شیخ محمد رشید یا پیپلز پارٹی کے کسی اور نظریاتی لیڈر کو صدرِ پاکستان منتخب کرا دیتیں تو شاید اپنی Term پوری کر لیتیں، لیکن انہوں نے، جاگیردار اور سابق بیورو کریٹ سردار فاروق احمدلغاری کو صدر منتخب کرا دیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ معزول ہونے کے بعد محترمہ نے کہا کہ۔ ”اگر مَیں ناہید خان کو، صدر منتخب کروا دیتی تو وہ فاروق احمد لغاری کا سا کردار ادا نہ کرتی!“۔ اِس پر پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈرز حیران ہو گئے تھے۔ جناب سلمان فاروقی اورجناب حسین حقانی، ایسے وکیل ہیں، جو کسی بھی عدالت میں مقدمے کے دونوں فریقوں کا مقدمہ لڑنے اور جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں ٹیکنو کریٹس نے، میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے اعلیٰ خدمات انجام دیں اور کامیاب رہے۔ اِس بار حسین حقانی بہت ہی "Fast" جا رہے تھے تو عارضی طور پر منظر سے غائب ہو گئے۔
اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور۔ 1995ءمیں، محترمہ بے نظیر بھٹو، مجھے عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر لے گئیں، وہاں۔ منّو بھائی نے مجھ سے کہا ۔ ”اثر چوہان! تُم نے، ذُوالفقار علی بھٹو کے خلاف اتنا زیادہ لِکھّا ہے اور اب تُم بھٹو کی بیٹی کے ساتھ دورے پر آگئے۔ تُمہیں شرم نہیں آئی!“۔ مَیں نے کہا کہ۔ اگر بے نظیر بھٹو نے، میرے والد صاحب کے خلاف لِکھا ہوتا تو واقعی مُجھے شرم آنا چاہیے تھی، لیکن اب تو۔۔۔ کسی اور کو شرم آنا چاہیئے۔ جناب نجم سیٹھی نگران وزیرِاعلیٰ پنجاب بن کر، قابلِ گردن زدنی کیوں ہو گئے؟۔ جب نادِیدہ قوتیں یوسف رضا گیلانی کو متفقہ وزیرِاعظم بنوا سکتی ہیں اور جنرل (ر) پرویز مشرّف کی جگہ، آصف علی زرداری کو صدرِ پاکستان منتخب کرا سکتی ہیں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ نجم سیٹھی کو، نگران وزیراعلیٰ کیوں نہیں بنوا سکتےں؟۔ ”آپس کی بات“۔ میں ہُما شُماکو تو شریک نہیں کیا جا سکتا۔ اُستاد اشرف نے بھی تو یہی کہا تھا کہ۔۔۔
”اشرف کرو نہ، مشورہءعِشق، دِل سے بھی
آپس کی، بات چِیت کا ، کیا ذِکر غیر سے“