اکنامکس سروے آف پاکستان 2008-09کے مطابق پاکستان میں ایک میڈیکل ڈاکٹر 1212 مریضوں کیلئے ہے۔ ایک ڈینٹل سرجن 18010 لوگوں کیلئے ہے۔ ایک ہسپتال میں چارپائی 1578 لوگوں کیلئے ہے۔ اس سے پچھلے سال بھی ڈاکٹروں کی تعداد کم تھی۔ ٹوٹل رجسٹرڈ ڈاکٹر اور میڈیکل کونسل اینڈ کونسل کے ساتھ 133956 ہیں۔ لہٰذا ہم ہر لحاظ سے بین الاقوامی سطح سے کم ہیں۔ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے۔ پانی صاف نہیں، خوراک اچھی نہیں، لوگوں کو روزگار میسر نہیں، مزدور مزدوری نہیں کر سکتا کہ بجلی نہیں، کارخانہ جات کام نہیں کرتے، اس لئے غربت ہے۔ صفائی نہیں، ہَوا صاف نہیں، پانی صاف نہیں، ہیلتھ ایجوکشن نہیں، حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے جاتے، پولیو کے قطرے پلائے نہیں جاتے، ہسپتال شہر میں ہیں، ڈاکٹرز کم ہیں، ڈاکٹر، نرسنگ سٹاف، پیرا میڈیکل سٹاف ناخوش ہے۔ آئے روز ہڑتال پر ڈاکٹر چلے جاتے ہیں مریض بیچارے دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ورکنگ ٹھیک نہیں، ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں، رول ہیلتھ سنٹر خالی پڑے ہیں۔
پنجاب کے سیلاب کے دوران ایک لاکھ بچے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کیلئے لیڈی ہیلتھ وزیٹر نہیں۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹر کی سکیورٹی نہیں۔ طرح طرح کی بیماریاں دیہاتی عورتوں میں ہیں، اب ہیپاٹائٹس سی بہت پھیلا ہوا ہے۔ شرح اموات حاملہ عورتو ں کی زیادہ ہے، نوزائیدہ بچوں کی اموات بھی زیادہ ہیں۔ معاشرہ میں صحت مند لوگ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ معاشرہ ابھی ہیلتھ پالیسی سے بہتر ہو گا۔ آئے روز نئے میڈیکل کالج ہر ضلع میں کھل رہے ہیں، ٹیچر کہاں سے لائیں گے؟ پروفیسر نہیں ہیں۔ پاکستانی جو امریکہ لندن میں پریکٹس کر رہے ہیں واپس آنا چاہتے ہیں ان کی تنخواہ زیادہ ہونی چاہیے۔ صحت کے تمام منصوبے معیاری نہیں ہیں۔ صحت کیلئے بجٹ کم ہے۔ ہر پاکستانی کی خواہش یہ ہے کہ وہ دنیا میں صحت مندانہ زندگی گزارے۔ اس کی خواہش یہ بھی ہے کہ اس کی اولاد بیوی بھی صحت مند ہوں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر کم ہیں، دوائی نہیں ملتی، ٹیسٹ کرنے والی مشینری اکثر خراب رہنے لگی ہے۔ پرائیویٹ کلینک ٹیسٹ ہوتے ہیں ٹیسٹ بڑے مہنگے پڑتے ہیں۔ پرائیویٹ بڑے ہسپتال کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی فیس زیادہ ہوتی ہے وہ عام آدمی نہیں دے سکتا۔ بہت سارے لوگوں کا گراف غربت کی وجہ سے بیماریوں کے ہاتھوں لاچار ہے۔ حکومت کو چا ہیے کہ ہسپتالوں میں آبادی کے اعتبار سے ڈاکٹر تعینات کرنے اور عام آدمی کیلئے سہولت مہیا کرنے کا بندوبست کرے۔ حکومت پنجاب نے ڈاکٹروں کی کمی پوری کرنے کیلئے 29 مارچ کے مطابق90 فیصد ڈاکٹر کو ریگولر کر دیا۔ یہ ٹیچنگ کیڈر کے ایسوسی ایٹ پروفیسر 19 گریڈ میں ڈیوٹی سرانجام دیں گے۔113سنیئر ڈاکٹر پروفیسر کا کافی عرصہ سے کیس چل رہا ہے اس سے میڈیکل کی تعلیم suffer کر رہی ہے۔ مریضوں کا علاج صحیح طور نہیں ہو رہا۔
فارسی کا محارہ ہے ”خو شیدل مزدور کام بیش کند“ خوش مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔ ڈاکٹری تعلیم بہت مشکل ہے اب سرکاری کالجوں میں اتنی جگہ نہیں کہ تمام ایف ایس سی طلبہ کو داخلہ دیا جا سکے لہٰذا پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ کالجوں کی فیس 5 لاکھ ہے ، 5 لاکھ ڈونیشن لیتے ہیں۔ ماں باپ کو ہر سال فیس لاکھو ں میں دینی ہوتی ہے۔ گاڑی کا خرچہ ، ہاسٹل کا خرچہ و دیگر ضروریات ہوتی ہیں۔ جب ڈاکٹر اتنی محنت کے بعد بنتا ہے اتنی رقم خرچ کرتا ہے تاکہ بنی نوح انسان کی خدمت کرے گا۔ وہ نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتا ہے۔ نوکری مل جائے جونیئر ڈاکٹر کی عزت نہیں ہوتی، وہ سٹیٹس کیلئے ہڑتال کرتے ہیں، پولیس سے مارکھاتے ہیں، کچھ حوالات میں چلے جاتے ہیں اس لیے ڈاکٹر مایوس ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسی جامع پالیسی مرتب کریں کہ ڈاکٹر ناراض نہ ہوں اور کام تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہے۔ اگر سول سیکرٹریت والے صحیح کام کریں تو ڈاکٹر خوش ہوں اور مریضوں کا علاج بروقت ہو۔ اکثر ہسپتالوں کی مشینیں خراب ہیں بروقت ان کی مرمت ضروری ہے۔ ڈاکٹر کا کام خدمتِ انسانیت ہے وہ اس وجہ سے یہ پیشہ اختیار کرتے ہیں اور خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ سات سال پڑھائی کے محنت سے گزارتے ہیں تاکہ نادار مریضوں کا علاج ہو سکے۔ ان کی روز مرہ زندگی اچھی گزارنے کے لیے معقول تنحواہ، اور سٹیٹس و عزت ضروری ہے۔ حکومت کی پالیسی ایسی ہو -1 امیر غریب کا علاج احسن طریقے سے سرکاری ہسپتالوں میں ہو
-2 ڈاکٹر کی عزت ہو -3 میڈیکل کالجوں میں طالب علموں کی پڑھائی صحیح ہو۔ اس سے قوم کی تعمیر ہو گی۔ صحت مند قوم معاشرہ میں تبدیلی لا سکتی ہے۔