کاش ایسا ہو سکے!

بے یقینی ہے، خدشات ہیں، الزامات ہیں اور فضا میں خوف کی چادر تنی ہے۔ کیا بلوچستان میں انتخابات ہو سکیں گے؟ یہ سوال ہر ذہن میں کلبلا رہا ہے۔ ہر زبان یہ پوچھتی نظر آتی ہے کہ پولنگ کے روز ووٹروں کا گھروں سے نکلنا ممکن ہو گا۔ بلوچستان جانے والے اور بلوچستان سے آنے والے صورتحال کا جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ تو دلکش نہیں دلخراش ہے۔ سکیورٹی اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور بالخصوص ایف سی کے حوالے سے تحفظات ہیں، لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں گرنے والی لاشوں سے سڑکیں لہو رنگ ہو رہی ہیں کچھ لوگ ہیں جو صوبے کا امن تہہ بالا کرنے میں مصروف ہیں۔ مالی وسائل اجازت دیتے تو میں خود کوئٹہ، ژوب، خضدار اور دیگر علاقے جنہیں ”خطرناک“ کہا جا رہا ہے وہاں جا کر صورتحال کا مشاہدہ کرتا لیکن اب دوسروں کی آنکھ سے دیکھنا اور زبانِ غیر سے سُننا پڑ رہا ہے۔ جن دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں سے ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی اس سے دل و دماغ کیلئے راحت کا سامان نہیں ہوا تاہم اب چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے کوئٹہ جا کر قوم پرست لیڈروں سمیت 13 سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے ملاقات میں ان کے تحفظات دور کرنے اور الیکشن کے موقع پر سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چیف سیکرٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد کے بقول بلوچستان کا کوئی علاقہ نو گو ایریا نہیں ہے تمام امیدوار اپنے علاقے میں بلا خوف و خطر جا کر انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں، ہر امیدوار کو حکومتی سطح پر چار سکیورٹی گارڈ فراہم کئے جائیں گے، اگر کہیں حالات خراب ہوئے تو پورا ضلع فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اور چیف سیکرٹری سے پہلے نگران وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی کے بقول صوبے میں پُرامن ماحول میں شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان دعوﺅں اور یقین دہانیوں کی قلعی انتخابات کے وقت کھل جائے گی، دعا کرنی چاہئے ان حضرات کو سرخروئی حاصل ہو اور پُرامن انداز سے الیکشن کا عمل مکمل ہو جائے تاہم یہ بہت خوش آئند ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود بلوچ رہنما اختر مینگل انتخابات میں حصہ لینے کیلئے بلوچستان پہنچ گئے ہیں اور ان کا یہ اعلان ہر محب وطن پاکستانی کیلئے طمانیت کا باعث ہے کہ اقتدار ملا تو پاکستانی آئین کے تحت حلف اٹھائیں گے۔ البتہ ان کا یہ کہنا کہ لاشیں آج بھی گر رہی ہیں کیا یہی جمہوریت ہے، ہمیں بیلٹ کی بجائے ہمیشہ بلٹ دی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی کے الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان کا خیرمقدم کیا اور کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صاف و شفاف انتخابات کے نتیجے میں حقیقی بلوچ قیادت کا سامنے آنا ہے۔ علاوہ ازیں زبیدہ جلال مسلم لیگ (ن) میں آ گئی ہیں اگرچہ وہ جنرل مشرف آمریت کا حصہ رہی ہیں اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ان کا بلوچستان سے تعلق مسلم لیگ (ن) کے سیاسی اثرات بڑھانے کا باعث بنے گا جبکہ بلوچستان کے قوم پرستوں سے میاں نواز شریف کے خیر سگالی کے رابطے ہیں توقع کی جانی چاہئے یہ سب چیزیں بلوچستان میںخوشگوار اور پُرامن ماحول کے قیام میں مدد دے سکتی ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر اختر مینگل اور طلال بگٹی مل کر حکومت بنا سکیں تو یہ حکومت ناراض بلوچ رہنماﺅں بالخصوص برہمداغ بگٹی اور حربیار مری کی ناراضگی دور کرنے اور انہیں واپس لا کر قومی سیاسی دھارے میں شامل کرنے میں ضرور مثبت اور کامیاب کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کاش ایسا ہو سکے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...