مکرمی! پہلے تو یہ تھا کہ خود سرکاری محکمے ہی ”تخریب کاری“ کرتے تھے۔ پختہ سڑک کے بنتے ہی کسی کدال لیکر آدھمکتے تھے اور بیچاری ”نوزائیدہ“ کا ”انجرہنجر“ ہلا دیتے تھے۔ اس ”کارخیر“ کیلئے کبھی ٹیلی فون والے تو کبھی گیس والے اور کبھی کوئی اور مہربان یہ فرض منصبی ادا کرتے تھے۔ لگتا ہے کہ کسی نے ”نتھ“ ڈالی ہے اور وہ طوفان تو قدرے تھم گیا ہے مگر وہ قرض خور عوام خصوصاً دکانداروں نے ”مرغ و مرنجاں“ طریقے سے سنبھال لیا ہے۔ ان میں بھی دودھ دہی اور ریسٹورنٹ والوں نے تو ”ات چکی“ ہوئی ہے۔ یہ کرم فرما صبح و شام ”وافر“ مقدار میں سڑک پر پانی پھینکتے ہیں تاکہ ”صفائی پسند“ بن کر گرد و غبار سے بچیں اور اگر گرمیاں ہوں تو سڑک کو اور خود کو ٹھنڈا رکھیں۔ جہاں جہاں پانی پھینکتے ہیں وہاں وہاں سے سڑک اکھڑنا اور ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہے۔سڑک کے ٹوٹنے سے انہوں نے تو اس ”جرم“ کی سزا پانی ہی ہوتی اردگرد کے مکینوں اور سڑک استعمال کرنے والوں کو بھی اپنے ساتھ سزا دیتے ہوئے ”لے ڈوبتے ہیں“اس لئے مقامی اور صوبائی حکومت سے استدعا ہے کہ وہ کچھ اس طرح کی قانون سازی کریں کہ ایسے ”مجرم“ کو قرار واقعی سزا یا کم از کم جرمانہ اور ٹوٹی ہوئی سڑک کی تعمیر کا پورا خرچ اس سے وصول کرکے خزانہ سرکار کو اس ناجائز بوجھ سے بچایا جائے۔ (میاں محمد رمضان، ٹاﺅن شپ لاہور)