سیاستدانوں کیلئے بالعموم میرے دل میں نرم گوشہ نہیں ہے۔ مگر بالخصوص کچھ لوگوں کے لئے میرے دل میں حیرانی کے پھول کھلے ہیں۔ ایک آدمی ہے پیپلز پارٹی کا رانا آفتاب اور دوسرا ہے۔ جے یو آئی کا حافظ حسین احمد۔ رانا صاحب مرنجاں مرنج آدمی ہیں اور حافظ صاحب بڑے بذلہ سنج ہیں۔ اپنی اپنی پارٹی کے لئے کمٹمنٹ پر مجبور لوگ بھی اچھے لگتے ہیں۔ مگر رانا صاحب اور حافظ صاحب اپنے دل کی چائس پر اپنی اپنی پارٹی پارٹی کے ساتھ کمٹڈ ہیں۔ یہ اس بات کی دردمندانہ کیفیت کا بیان آگے چل کر آئے گا۔
آج کل سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ جاری کرنے کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ابرارالحق کے لئے جو گانا نیا زمانہ لے کے آیا وہ امیر کبیر ہوا پھر وزیر شذیر ہونے کی خواہش کسی کو مرنے نہیں دیتی اور جینے بھی نہیں دیتی
ٹکٹ کٹاﺅ لین بناﺅ
کنے کنے جانا بلو دے گھر
تحریک انصاف میں گلوکاری اور سیاست کاری۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔
مجھے جنڈیالہ شیر خان سے کسی انجان کال کے ذریعے فون پر بشیر احمد گادی نے کہا کہ ن لیگ کے ٹکٹ پر اس حلقے میں شیر اکبر خان کا حق ہے۔ اس خاندان والوں نے بستی کے غنڈے کے خلاف ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور جیت کر دکھایا۔ محمود اکبر خان قتل بھی ہو گیا۔ بچے چھوٹے تھے تو اس خاندان کی سفارش پر امانت کے طور پر عرفان ڈوگر کو ٹکٹ مل گیا۔ مگر اب علاقے والے چاہتے ہیں کہ مسلم لیگی گھر کے نوجوان شیر اکبر خان کو ٹکٹ ملے۔ اسے لوگ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کے لئے کہہ رہے ہیں مگر وہ ن لیگ کے ٹکٹ کا منتظر ہے۔ اب ہر جگہ ہر پارٹی میں انتظار اور انتشار رل مل گئے ہیں۔ بشیر احمد گادی فون پر رونے لگا تو یہ آنسو نواز شریف کے دربار میں پہنچ گئے ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے رانا آفتاب ایک خوددار اصول والے باوقار آدمی ہیں۔ ان سے میری جان پہچان نہ تھی تو بھی وہ مجھے پسند تھے۔ اب تو ان سے کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ ایسے لوگ اب بھی پیپلز پارٹی میں ہیں۔ بینظیر بھٹو ان کے گھر فیصل آباد جا چکی تھیں۔ رانا آفتاب کی ماں نے بی بی سے کہا کہ میرا بیٹا کبھی تمہیں چھوڑ کر نہ جائے گا اور انہوں نے نظر انداز کئے جانے کے باوجود پارٹی نہ چھوڑی۔ پچھلے پانچ سال میں اتنے مخلص اور طاقتور آدمی سے پارٹی محروم رہی؟ انہیں پارٹی ٹکٹ کیلئے آفر کی گئی مگر وہ اپنے گھر میں بہت سکون اور وقار کے ساتھ بیٹھے رہے۔ وہ ممبر اسمبلی اور وزیر رہے۔ پارٹیوں کے عہدوں پر فائز رہے، وہ وہی ہیں جو تھے۔ اب پارٹی ان خواتین وحضرات نے یرغمال بنائی ہے جو اپنی غیرمقبولیت کے باوجود سمجھتے ہیں کہ لوگ انہیں ووٹ دینگے۔ حیرت ہے کہ حکمران پارٹیوں کے امیدواران امید سے ہیں کہ صوبے اور مرکز میں جیت جائینگے۔
رانا آفتاب پیپلز پارٹی میں ہیں جبکہ دوسری پارٹیوں والے انکی راہ میں پھول لئے کھڑے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کے فیصل آباد کے مالک راجہ ریاض ہیں، مگر وہاں لوگ کسی فیصلے کے منتظر ہیں۔
یہ منظر میں نے پچھلے انتخابات میں دیکھا تھا کہ مولانا فضل الرحمن جائز اختلاف پر حافظ حسین احمد سے اتنے ناراض ہوئے کہ انہیں ٹکٹ نہ دیا۔ انہوں نے الیکشن ہی نہ لڑا، انہیں بھی کئی جماعتوں نے ٹکٹ کی آفر دی مگر وہ اپنی جماعت کے ساتھ مخلص رہے۔ وہ آزاد امیدوار کے طور پر بھی الیکشن لڑتے تو جیت جاتے۔ اس بات پر مولانا نے انہیں ٹکٹ دیدیا ہے۔ حافظ کے جملے خوشبو کی پھوار کی طرح بکھرتے ہیں، وہ لحاظ نہیں کرتے۔ حضرت مولانا بھی انکے جملوں کی زد میں آجاتے ہیں۔ انکا ایک جملہ سنیں جو انہوں نے صدر اور انکے وزیر قانون فاروق نائیک کیلئے کہا ہے: ”وہ صدر زرداری کی نائیکہ ہیں“ یہ جملہ صدر زرداری نے بہت انجوائے کیا۔ فاروق نائیک نے موقع کی مناسبت سے حافظ کو مٹھائی کا ڈبہ بھیجا ہے اور شکریہ ادا کیا ہے۔
مجھے افسوس ہوا کہ پیپلز پارٹی نے بہت وفادار ورکر خواتین صغیرہ اسلام اور ساجدہ میر کو ٹکٹ نہ دیا۔ (ق) لیگ والے ایسی ہی خاتون کنول نسیم کو ٹکٹ نہیں دے رہے تھے۔ آمنہ الفت نے دہائی دی۔ چودھری صاحبان کے گھر سے آواز اٹھی، کنول ایم پی اے تھی مگر پچھلے پانچ سال اس نے ایک عام ورکر کے طور پر گزارے اور اُف نہ کی۔ چودھری صاحبان نے محسوس کیا اور اسے ٹکٹ دیدیا۔ ساری پارٹیوں کے بااثر لوگوں کی بیویوں، بیٹیوں اور دوسری خاص خواتین کو ٹکٹ مل گئے ہیں حتیٰ کہ امیر جماعت اسلامی منور حسن کی بیٹی کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ نوازشریف نے اپنی ہونہار بیٹی مریم نواز کو ٹکٹ نہیں دیا۔ وہ پارٹی کے نوجوان رہنماﺅں سے زیادہ اہل اور قابل ہے۔ میں نے اس بیٹی کو کلثوم نواز کی تحریک جلاوطنی میں دیکھا تھا۔ اس نے عمران خان کی یوتھ تحریک انصاف کے مقابلے میں اپنا مقام ثابت کیا ہے۔ اس ضمن میں کیپٹن (ر) صفدر اور حمزہ شہباز کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اس میدان سے باہر ہیں۔ چودھری مونس الٰہی تو سامنے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اپنی موجودگی کو ثابت کرچکے ہیں۔ عدالتوں کا مقابلہ بھی کیا ہے مگر چودھری صاحبان کے گھر کی خواتین سیاست میں نہیں آتیں۔ ورنہ برادرم مشاہد حسین کی بیوی کو بھی ٹکٹ مل گیا ہے۔ وہ ایک اہل خاتون ہیں۔ مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ اہلیہ اہل سے نکلا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے اس بار اپنی اہلیہ کو ٹکٹ نہیں دلوایا مگر زعیم قادری نے اپنی بیوی کیلئے ٹکٹ لے لیا ہے۔ عجب زمانہ آیا ہے کہ سعد رفیق کے مقابلے میں کشمالہ طارق ہیں اور حمزہ شہباز کے مقابلے میں عائشہ احد ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں مسرت شاہین ہیں۔ جمشید دستی کے مقابلے میں حنا ربانی کھر ہیں بلکہ حنا کے مقابلے میں دستی ہیں۔ دونوں کے دست و گریباں ہونے کا بھی خدشہ ہے مگر دونوں کے ڈس کوالیفائی ہونے کا خطرہ ہے۔
چودھری پرویز الٰہی اور چودھری احمد مختار کے مقابلے میں خواجہ سراءزاہد ریشم ہیں۔ اس میں چودھری پرویز الٰہی قربانی دیں تو جناب زاہد ریشم بآسانی جیت سکتے ہیں بلکہ جیت سکتی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی تو کسی اور حلقے سے بھی جیت جائینگے۔ اداکارہ میرا عمران خان کے مقابلے میں اتر رہی تھی مگر عمران خان میدان چھوڑ گئے۔ اب شفقت محمود میدان میں دم بخود کھڑے ہیں....ع
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے ”گھر“ کو دیکھتے ہیں
شبینہ ریاض نے ٹکٹ کیلئے درخواست ہی نہیں دی۔ انکی ڈگری کیلئے بات شروع ہوئی تھی کہ اس باوقار خاتون نے استعفیٰ دیدیا۔ ان کیلئے یہ فیصلہ ہمیشہ محفوظ رہیگا کہ انکی ڈگری جعلی تھی یا اصلی تھی۔ بیٹے ہشام ریاض کی منگنی شرمیلا فاروقی سے ہوئی ہے۔ شرمیلا کو ٹکٹ ضرور ملا ہوگا اب تو انکا دگنا حق ہے۔ مسلم لیگ (ن) والوں نے عائشہ جاوید کو فہرست میں بہت دور رکھا ہے تاکہ وہ ممبر نہ بن سکیں۔ (ق) لیگ نے تو انہیں ممبر اسمبلی بنوا دیا تھا۔ صبا صادق بھی (ق) لیگ میں گئی تھیں، اب پھر مسلم لیگ (ن) میں ہیں۔ وہ دونوں جگہ پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ صبا صادق واحد امیدوار ہے جو صادق تو ہیں ہی، امین کیلئے بھی کوئی نہ کوئی صورت بن جائیگی۔ عورتوں کیلئے بھی صادق اور اور امین ہونا ضروری ہے مگر کوئی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ حاجی حنیف پھر مسلم لیگ (ن) میں آگئے ہیں۔ وہ اتنے مطمئن ہیں جتنے (ق) لیگ میں جانے کے بعد تھے۔
طارق عظیم، امیر مقام، ماروی میمن، ہمایوں اختر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ہیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں۔ ہم انہیں نوازشریف سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ لے دیتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کا مقابلہ کرنے کا مزا اسی صورت آئیگا۔ (ق) لیگ کے فیصل صالح حیات نے پیپلز پارٹی جائن کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مجھے مزا آیا ہے مگر افسوس وقاص اکرم پر ہے۔ اسے چودھری صاحبان نے سب سے زیادہ نوازا ہے۔ وہ وفاقی وزیر بنوائے گئے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے باوجود نااہل ہوجائیں گے۔ مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ اسکے بقول وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرا شاگرد تھا۔ عارفہ خالد ایک مستعد، متحرک اور وفادار ایم پی اے تھی۔ حیرت ہے کہ نوازشریف نے اسے قومی اسمبلی کیلئے ٹکٹ دیدیا ہے۔ ابھی اس حوالے سے ایک اور کالم کی ضرورت ہے۔ ابھی تو کسی سیاسی پارٹی نے ٹکٹوں کا فیصلہ نہیں کیا اور کئی لوگ ڈس کوالیفائی بھی ہوگئے ہیں۔