لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ نے مجھ سے ای میل کے ذریعے ایک سوال پوچھا ہے جو اسکے کسی تعلیمی پروجیکٹ کا حصہ ہے ،سوال پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں یہ سوال گردش کر نے لگ گیا ہے "ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کے رویوں کی وجوہات اور اسکے کیا نتائج ہیں "؟اس سوال سے ہم واقف ہوں یا نہ ہوں مگر یہ رویے ہمارے لئے اجنبی نہیں ہیں ۔اچھا ہے کہ اب یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے یعنی لوگ اس بارے سوچنے لگے ہیں ۔ تو امید ہے کہ جواب بھی ایک دن ڈھونڈ لیں گے اور جس دن جواب مل گیا اُس دن حل بھی مل جائیگا۔
عدم برداشت کا رویہ میرے نزدیک اس تکبر کی اولاد ہے جو خود احساس ِ کمتری سے وجود میں آتا ہے ۔ سالوں کی غلامی نے اس خطے کے لوگوں کو جسمانی طور پر آزاد ضرور کر دیا ہوگا مگر ذہنی طور پر وہ غلام ہیں اس لئے ہر سوال کا جواب اپنے اندر ، اپنے خطے ،اپنے ملک ، اپنے شہر اور اپنے گھر میں ڈھونڈنے کی بجائے ہم سوالوں کے جواب مغرب سے ڈھونڈنے کی کوشش تو کرتے ہیں اور شائد یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہ ہو مگر المیہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب جواب ڈھونڈ بھی لیتے ہیں مگر اُسے اپنانے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ وہاں ہمارے اندر کا ایک متکبر انسان آڑے آتا ہے اور کہتا ہے ۔۔اوئے تُو اپنی سنا کسے دی نہ سُن ۔۔۔
ایک دفعہ میرے ٹاک شو کا موضوع آزادی ءاظہار تھا ۔ حضرت محمد ﷺپر بننے والی توہین آمیز فلم کی بات ہو رہی تھی ۔ایسی فلم جس سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی دل شکنی ہو، نہیں بنانی چاہیئے ،ایک صاحب کہہ رہے تھے نہیں کہنے اور کرنے کی بے لگام آزادی ہونی چاہیے ۔ میں نے کہا جب آپ چھتری گھماتے ہیں تو آپ کو وہیں تک گھمانے کی آزادی ہونی چاہیئے جہاں تک کسی کی ناک یا آنکھ نہ ہو ۔اس بات پر" بولنے کی آزادی "کے حق میں لمبے لمبے دلائل دینے والے صاحب سیخ پا ہوگئے اور اسکے بعد جب بھی ان سے کہیں اتفاقاً بھی آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے حقارت سے منہ دوسری طرف موڑ لیا ۔سو ہم آدھا سچ پڑھتے ہیں، یہ تو ہم نے پڑھ لیا اور سمجھ لیا کہ بولنے کی آزادی ہونی چاہیئے لیکن یہ نہیں سمجھا کہ دوسرے نے بھی یہی پڑھ رکھا ہے ۔
ان پڑھ لوگوں کی بات تو چھوڑیں ، انکے اندر ہم عدم برداشت کی وجوہات بہت آسانی سے ڈھونڈ لیں گے ۔تعلیم کا نہ ہونا مولوی نے جو کہہ دیا انہوں نے آنکھیں بند کر کے مان لیا ۔ جوزف کالونی کوآگ بھی لگا آئینگے اور کسی مندر اور دوسرے فرقے کی مسجد کو ڈھا بھی آئینگے،مولوی انہیں ہر گزنہیں بتائے گا قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے ۔ مولوی انہیں یہ بتائے گا کہ مولوی صاحب کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔ اس لئے ان پڑھ بندے "جہالت ایک نعمت" کے تحت زندگی بڑی آسان گذارتے ہیں ۔ مسئلہ ہمارے ان لوگوں کا ہے جو پڑھ لکھ گئے یا بہت زیادہ پڑھ لکھ گئے ۔ اب ہیں تو وہی گرم موسم کے علاقے کی پیدا وار اور جینز بھی اماں ابا کی گرم ، سونے پر سہاگہ پڑھ گئے ‘ یعنی قدرتی آفتوں کے ساتھ آپ کا علم ایک اضافی آفت ۔
وہ پھر چھوٹی باتوں پر بھی اختلاف ِ رائے برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔جو چار کتابیں نہیں بلکہ چار حرف بھی پڑھ جائے وہی دوسرے کو حقیر اور اپنے آپ کو عقل ِ کُل سمجھنے لگ جاتا ہے بظاہر کتنا ہی عاجز بنے ۔ یہ عاجزی کا چولا اس وقت اترجاتا ہے جب کوئی انکے نظریات کی لائن سے ایک آدھ حرف بھی پیچھے ہٹ جائے ۔ ان کا جینا حرام کرنے کی ایک باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے جس میں ان کی اصلی ڈگری کو نقلی ثابت کرنے سے لے کر انکی کردار کشی کرنابذریعہ فون ، سوشل میڈیا یا کالم لکھنا تمام شامل ہیں ۔
عام پاکستانی دو باتوں پربرداشت کھو دینا نہ صرف اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں بلکہ اُس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔ایک تو اسلام کے نام پر دوسرا پاکستان کے نام پر۔ حکمران کسی بھی شکل میں آئے چاہے( آمریت یا جمہوریت)، آج تک عوام کو ایک قوم بنانے میں ناکام رہے ہیں وہ قومیت جس کی امید حکمران طبقہ (جس میں سیاست دان ، فوج ،عدلیہ اور بیوروکریسی شامل ہیں )عوام سے رکھتا ہے ،وہ انکے اپنے اندر ناپید ہے۔ جو انتشار ،بدگمانی ،وسوسے اور confusion آج پاکستانی (پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں ہے )شکار ہے وہ کسی غلط پروپگینڈے، سازش یا کسی غلط لکھی گئی پاکستان کی تاریخ کا ثمر نہیں ہے بلکہ ان رویوں کا ہے جو پاکستان بننے سے آج تک عوام پر مسلط کئے گئے ۔ لفظ اہم ہوگئے انسان غیر اہم ہوگیا۔ پاکستان کیوں بنا ؟س سوال کے جواب میں پاکستان کی حرمت یا سلامتی نہیں چھپی ہوئی ۔ اس کا جواب پہلا شخص نیلا اور دوسرا شخص سبز بھی دے سکتا ہے ۔ جس طرح اسلام کی سلامتی اسکے امن اور آشتی کے عالمگیر پیغام میں چھپی ہوئی ہے نا کہ چھوٹی چھوٹی زبانی کلامی بے حرمتیوں میں ، اسی طرح پاکستان کی نیک نامی اُس کے اندر بسنے والے لوگوں کے حالات ِ زندگی میں پوشیدہ ہے نہ کہ پاکستان کی تاریخ پر سوال اٹھانے میں ۔اگر پاکستانی ( جس میں ہندو ،سکھ ، عیسائی اور ہر فرقے کا ،ہر زبان ، نسل اور رنگ ) محفوظ ہے ، مائیں شیر خوار بچوں کو مار کر خود سوزی نہیں کر رہیں ، بچے میدانوں میں کھیل اور سکولوں میں پڑھ رہے ہیں ، بوڑھوں کو ریٹائرمنٹ کے بعدجینے میں موت نہیں مل رہی ،بیماروں کو ہسپتالوں میں شفا مل رہی ہے اور مردے قبروں میں چین سے سوتے ہیں تو ایسے پاکستان کی نیک نامی اور سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں۔ ورنہ وہ حکمران طبقہ جو غداری اورمحب ِ وطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتا ہے انہیں اپنے علاوہ کوئی محب ِ وطن نظر نہیں آئے گا ۔ لوگوں کو سوچنے ، سوال کرنے دیں اور جواب ڈھونڈنے دیں ۔ قومیت کا مظاہرہ آپ کریں ، بیرونی بنکوں سے پیسہ واپس لائیں ، اعلی مراعات یافتہ نوکریاں رشتے داروں میں بانٹنی بند کریں تو پاکستان کو گالی دینے والے جعلی دانشوروں کے منہ خود ہی بند ہوجائینگے اور عوام کو احساس ہوگا کہ "انکی بھی کوئی سُن رہا ہے سب انہی کو ہی نہیں سنائے جارہے "۔اور وہ ایک قوم ہیں ۔