چکوال سے سابق ایم این اے ایاز امیر کو اس دفعہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے انتخابی ٹکٹ سے محروم رکھا تو یقینا اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہونگی۔ ایاز امیر کو شاعروں میں غالب بہت پسند ہے۔ ہفتہ 29 مارچ 2014ء کو ایک اخبار میں ان کا کالم پڑھ کر مجھے بھی غالب یاد آ گئے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
میں نے غالب کے درج بالا شعر کے مصرع اول کے پہلے لفظ ’’بک‘‘ کو ’’لکھ‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ مجھے سینئر ترین صحافی ایاز امیر کا بہرحال احترام ہے لیکن ایاز امیر نے اپنے کالم میں آفاقی اور لافانی شاعر علامہ اقبال کی تقسیم ہند کی تجویز کو بصیرت اور دانائی سے عاری قرار دے کر جس بے ہودگی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں اُسے بے ہودگی اور بدتمیزی ہی کہوں گا کیونکہ خرافات کو ارشادات تو کسی صورت میں بھی نہیں کہہ سکتے۔ سیاہ کو سفید اور جھوٹ کو سچ کہا بھی کیسے جا سکتا ہے۔
ایاز امیر نے 1990ء کے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد کے حوالے سے یہ تحریر کیا ہے کہ ’’اقبال نے انڈیا کے شمال مغربی علاقوں میں مسلم ریاست کے قیام کی بات کی۔ تاہم یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ وہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی بات کر رہے ہیں یا وہ انڈیا کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے‘‘۔میرا خیال نہیں بلکہ یقین ہے کہ قائداعظم کے نام اقبال کے خطوط پر مشتمل کتاب ایاز امیر نے نہیں پڑھی۔ مئی 1936ء سے نومبر 1937ء کے درمیانی عرصے میں علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام جو خط لکھے تھے وہ انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ قائداعظم نے اپنے نام علامہ اقبال کے خطوط پر مشتمل کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ’’اقبال نے مسلم ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہایت واضح الفاظ میں کیا ہے۔ ان کے خیالات مجموعی طور پر میرے تصورات سے ہم آہنگ تھے۔ ہندوستان کے جو آئینی مسائل درپیش تھے اُن کے گہرے مطالعہ اور غوروخوض کے بعد میں بھی آخرکار ان ہی نتائج تک پہنچا جن تک سر اقبال پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔
علامہ اقبال نے 21 جون 1937ء کو قائداعظم کے نام جو خط لکھا تھا۔ اُس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ’’میرے خیال میں نیا آئین جس کا مقصد تمام ہندوستان پر مشتمل ایک وفاق قائم کرنا ہے، انتہائی مایوس کن ہے۔ ہندوستان میں امن وامان قائم کرنے اور مسلمانوں کو غیرمسلموں کے تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب یہی ہے کہ مسلم صوبوں کو علیحدہ فیڈریشن قائم کی جائے۔ کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ قوم تصور نہ کیا جائے اور اُنہیں حق خوداختیاری حاصل ہونا چاہیے جس طرح ہندوستان کی دیگر اقوام کو اور بیرون ہندوستان لوگوں کو حاصل ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے شمال مغربی ہندوستان کے علاقوں اور بنگال کا اپنے اس خط میں ذکر کر کے اُس پورے پاکستان کا تصور پیش کر دیا تھا جو بعدازاں 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ علامہ اقبال نے 28 مئی 1937ء کو قائداعظم کے نام جو خط تحریر فرمایا تھا اُس کا مطالعہ کر کے تو ایاز امیر کو ضرور ذہنی صدمہ پہنچے گا کیونکہ اُس خط میں علامہ اقبال نے نہ صرف آزاد مسلم ریاست کی بات کی تھی بلکہ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے بغیر اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی غربت، بے روزگاری اور معاشی مسائل کا حل بھی صرف اور صرف اسلامی قوانین کے نفاذ سے ممکن ہے۔
قائد اعظم کے ایک پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سیّد نے قائداعظم کے بارے میں لکھی گئی اپنی کتاب میں یہ واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب قرارداد لاہور منظور ہو گئی تو قائداعظم نے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ ’’آج اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسا ہی کیا ہے جس کی وہ ہم سے خواہش رکھتے تھے‘‘۔
یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے ایک ایسی آزاد مملکت کا تصور پیش کیا جہاں وہ اسلام کو مدینہ کی ریاست کی طرح عملی طور پر نافذ دیکھنا چاہتے تھے۔ 2 مارچ 1941ء کو یوم اقبال کے حوالے سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے۔ وہ بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم تھے لیکن حقیقت ہے کہ وہ ایک بہت بڑے سیاستدان بھی تھے۔ انہوں نے قوم کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں ہو سکتا۔ اقبال دورحاضر میں اسلام کے بہترین مفسر تھے کیونکہ اس زمانے میں اُن سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ اُن کی قیادت میں مجھے ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ جس بات کو اقبال صحیح سمجھتے تھے اور یقینا وہ صحیح ہوتی تھی وہ اس پر مضبوط چٹان کی طرح قائم رہے تھے‘‘۔
میرا خیال ہے کہ علامہ اقبال کیلئے قائد اعظم کا یہ خراج عقیدت پڑھ لینے یا جاننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے علامہ اقبال کی تجاویز یا اور کسی کالم نگار کی طرف سے انتہائی بھرے انداز میں کیچڑ اچھالنے سے علامہ اقبال کی عظمت کو کم کیا جا سکتا ہے؟ ہر گزنہیں۔ میرے لیے اطمینان کی بات ہے کہ ایاز امیر کا علامہ اقبال کے خلاف بے بنیاد الزامات پر مبنی کالم جس اخبار میں شائع ہوا ہے۔ اُسی اخبار میں میرے استادگرامی وارث میر مرحوم کے بیٹے حامد میر نے تفصیل سے جواب دے دیا ہے مگر یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ پاکستان کا کوئی اخبار پہلے اپنے صفحات قائداعظم اور علامہ اقبال جیسے عظیم قومی محسنوں کے خلاف خرافات لکھنے کیلئے پیش کر دے اور بعد میں ایک دو کالم قائد اعظم اور علامہ اقبال کی حمایت میں شائع کر دیئے جائیں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال پاکستانی قوم کیلئے عقیدے کی طرح محترم ہیں۔ ان دونوں شخصیات کیلئے ہماری پالیسی ڈبل اور منافقانہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح نظریہ پاکستان کے خلاف اور سیکولر ازم کی حمایت میں لکھنے کی آزادی دینا پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا کہ اسی سرزمین سے ہر طرح کے مفادات حاصل کرنے والے کچھ بدباطن اور بدفطرت حضرات قیام پاکستان کے 67 سال بعد بھی تخلیق پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کا ’’غلط فیصلہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔