ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے بیان کے بعد ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا تھا۔ بلاول بھٹو کا بیان ایک ایسے موقع پر آیا جب گورنر ہائوس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات کے بعد سندھ میں مخلوط بنانے کا اعلان بھی ہوگیا تھا اور ایم کیو ایم کے وزراء کی تقریب حلف برداری کیلئے بیورو کریسی کو الرٹ کر دیا گیا تھا۔ باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان گفت و شنید کا عمل کم از کم4 اپریل تک ٹل گیا ہے جس کی ایک وجہ بلاول بھٹو کے بیان سے زیادہ بعض وزارتوں کی تقسیم پر ہونے والے اختلافات ہیں۔ پیپلز پارٹی جن قلمدانوں کو دینے پر تیار ہوگئی تھی ان سے اب انکار کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے بعض وزراء اپنے قلمدان ایم کیو ایم کے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان دوریاں پیدا ہونے سے مفاہمت کے جادوگر رحمان ملک کو بہت مایوسی ہوئی ہوگی جوکہ دونوں جماعتوں کے درمیان دوستی کرانے کیلئے بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ حکومت کی شمولیت پر پیپلز پارٹی کے اندر بھی اختلافات ہیں خصوصاً فارورڈ بلاک زیادہ برہم ہے۔ جن وزراء کے محکمے محفوظ ہیں وہ ایم کیو ایم کی شمولیت کے حامی ہیں۔ جن کی دکانیں بند ہو رہی ہیں اور کروڑوں روپے یومیہ کی آمدنی ہاتھ سے جانے کا خدشہ ہے وہ خلاف ہیں۔ خورشید شاہ نے جب ایم کیو ایم کے خلاف بیان دیا تھا تو ہم نے ان کالموں میں لکھا تھا کہ خورشید شاہ نے قیادت کے اشارے پر سخت بیان دیا ہے لیکن جب بلاول بھٹو نے کہا کہ مارشل لاء کی حمایت اور سندھ توڑنے کے بیانات دینے والوں کو حکومت میں کیسے شامل کرسکتے ہیں۔ تو بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ بلاول بھٹو کے بیان کو ایم کیو ایم نے سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی علی رضا عابدی نے یہ کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیں کئی بار حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے لیکن ہم حکومت میں شمولیت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ علی رضا عابدی کے بیان کے بعد دونوں جانب سے خاموشی چھا گئی۔ مفاہمت کے جادوگر بھی گھر جا بیٹھے اور مذاکرات کا عمل ختم ہو گیا ۔لیکن سیاسی حلقے مذاکرات میں تعطل کو تسلیم کرنے کو تیارنہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم اور حکومت کے درمیان پس پردہ رابطے برقرار ہیں۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب بلاول بھٹو کی سکیورٹی کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بیانات کی جنگ ہوئی تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بلاول بھٹو کے حق میں بیان دیا جس پر سب کو خوشگوارحیرت ہوئی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ایم کیو ایم باریک بینی سے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شمولیت کا جائزہ لے رہی ہیاور مخلوط حکومت بنانے کے فیصلے کے باوجود بعض تحفظات موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلاول بھٹو کے بیان کا بھی دونوں جماعتوں نے جائزہ لیا اور مشاورت کی گئی۔ جس کے بعد ایم کیو ایم مطمئن بھی دکھائی دی حالانکہ پس پردہ رابطے برقرار ہیں لیکن مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔ ایک جانب ایم کیو ایم حکومت شمولیت کیلئے پیپلز پارٹی سے مذاکرات کر رہی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی حکومت بلدیاتی اداروں کو عضومعطل بنانے اور کے ایم سی کو سفید ہاتھی بنانے کے لئے ایک منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت نے صفائی ستھرائی کا نیا محکمہ قائم کر دیا ہے جوکہ یکم جولائی سے وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں کام کرے گا۔ جس کے ساتھ کے ایم سی کے اور میونسپل کارپوریشنوں کے40 فیصد ملازمین اور اختیارات حکومت سندھ کے پاس چلے جائیں گے۔ کراچی میں یہ تاثر ہے کہ سندھ کے شہروں کے بلدیاتی ادارے ایم کیو ایم کی طاقت ہیں۔ پیپلز پارٹی نے یہ قوت پارہ پارہ کرنے کیلئے بہت ریسرچ کی ہے اور اپنے تھینک ٹینک کی تجویز پر حکمت عملی تیار کی ہے۔ جیالے سابق صدر آصف علی زرداری کے اس پلان کو سلام پیش کر رہے ہیں جس کے تحت ایک جانب وہ ایم کیو ایم کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کئے ہوئے ہیں دوسری جانب کراچی میں ایم کیو ایم کا گڑھ کہلانے والے بلدیاتی اداروں کو مفلوج بنا رہے ہیں اور ان میں توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ گزشتہ دنوں کے ایم سی کا محکمہ ماسٹر پلان بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔ جس کے باعث کے ایم سی دو ارب روپے سالانہ کی آمدنی سے محروم ہوگئی۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی واٹر بورڈ اور ترقیاتی اداروں اور میونسپل کارپوریشنوں پر پیپلز پارٹی کا کنٹرول ہے کراچی میں18 ٹائونز ہیں۔ لیکن بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی صرف تین ٹائونز میں غیر قانونی مکانات‘ عمارتوں‘ شادی ہالوں اور مارکیٹوں کو گرا رہی ہے یہ ٹائون ایم کیو ایم کا گڑھ کہلاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ جہاں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر سندھ میں مخلوظ حکومت بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ وہاں بعض چینلوں نے ان کی نوکری میں خطرے میں ڈال دی اور یہ خبریں نشر کرنا شروع کردی کہ نئے وزیراعلیٰ سندھ کیلئے چار ناموں پر غور ہو رہا ہے جن میں سابق صدر کے بھائی اویس مظفر بھی شامل ہیں‘ وزیر اطلاعات شرجیل میمن سمیت تمام وزراء نے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی تردید کی لیکن میڈیا ایک کے بعد دوسرے امیدوار سامنے لاتا رہا۔ جس کا سبب پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اس بار بھی بحران سے صاف بچ کر نکل گئے۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو کو ملنے والی دھمکیوں کی بازگشت سندھ اسمبلی میں بھی سنائی دی اور ارکان نے تشویش کا اظہار کیا۔مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ مروت نے کہاکہ بلاول بھٹو ملک اور قوم کا اثاثہ ہیں اس معاملہ پر مسلم لیگ اور پنجاب حکومت کے درمیان رابطے قائم ہیں۔ بلاول بھٹو نے دھمکیاں ملنے کے بعد پنجاب کا دورہ منسوخ کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت پنجاب ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماء آغا سراج درانی نے صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کے اس بیان کا بہت برا مانا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ بلاول بھٹو کو سابق وزیر رحمن ملک نے دھمکی آمیزخط لکھا ہے جس پر اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے کہاکہ بلاول کو رحمن ملک نے خط لکھا ہے تو رانا ثناء اللہ اس کا ثبوت مانگتے رہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ کے رہنما بھی بلاول کو ملنے والا خط مانگتے رہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل کراچی میں بلاول بھٹو کو بم سے اڑانے کی سازش پکڑی گئی اور پولیس نے بارود سے بھری گاڑی برآمد کرکے تحریک طالبان کے ایک رہنماء کو گرفتار کر لیا تھا جسے اندرون سندھ کی جیل میں منتقل کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ وہ اب تک انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کے ہدف ہے۔ مئی2011 ء کے الیکشن میں بلاول بھٹو نے دھمکیوں کے بعد انتخابی مہم نہیں چلائی تھی اور بلاول بھٹو دبئی چلے گئے تھے۔ بعد میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ہم سے الیکشن میں100 نشستیں چھین لی گئیں۔