مشرف کی بیرون ملک روانگی کیلئے درمیانی راہ کی تلاش

جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں اس وقت سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے پاکستان کے چند بڑے سر جوڑے بیٹھے ہیں غالب کا امکان ہے کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے دیا جائے گا۔ اپریل کا آغاز ہو گیا ہے اسی اپریل کی 4تاریخ کو آج سے  35  برس قبل اس ملک  کے ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس واقعہ نے پاکستان کی سیاست میں جو تلخی گھولی اس کا خمیازہ ملک اور قوم  آج تک بھگت رہی ہے۔ سو تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے خواہاں لوگوں کی رائے ہے کہ خصوصی عدالت کی جانب سے گیند حکومت اور حکمرانوں کے کورٹ میں پھینک دئیے جانے کے بعد پرویز مشرف کی بچت کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ پاکستان کے چوٹی کے سیاستدان نواز شریف ایسا کبھی نہیں چاہیں گے کہ تاریخ میں ان کا نام ایک منتقمم مزاج حکمران کی حیثیت سے آئے۔ نواز شریف کے دست راست شہباز شریف بھی عفو درگزر کی راہ اپنانے کے حق میں ہیں۔ بزرگ سیاستدان اور مسلم لیگ ن کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کی بھی یہی رائے ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو سابق صدر آصف زرداری نے بھی بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ ’’معاف کر دیا جائے‘‘۔ پرویز مشرف کے حامی اور مخالف بہت ہیں تاہم اس بات پر لگ بھگ اتفاق رائے  ہے کہ پرویز مشرف نے 3نومبر کو آئین پاکستان معطل کیا، غلط کیا۔ 12 اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا، غلط کیا تاہم سابق آرمی چیف کو غدار قرار دینا بھی غلط ہو گا لہذا اس کے لئے یہی سزا  بہت ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری حصے میں جلا وطن ہو جائیں پرویز مشرف کی قسمت  کا جو بھی فیصلہ ہو گا اس کے پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت ملک دہشت گردی اور توانائی کے بحران میں مبتلا  ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی پہلی ترجیح ملک کو توانائی کے بحران سے نجات دلانا ہے اس سلسلے میں پچھلے چند ماہ میں جو کوششیں ہوئی ہیں حکومت اور حکمرانوں سے اختلاف کرنے والے بھی ان کا اعتراف کرتے ہیں البتہ اس کا حلقہ نجی محفلوں تک محدود ہے لیکن 2014ء کے اختتام تک صورت حال واضح ہو جائے گی کہ 2013ء میں اقتدار میں آنے والی حکومتوں کی کارکردگی  کیا ہے؟ اختلاف رائے میں کوئی برائی نہیں حکمرانوں کو غلط پالیسیوں اور غلط اقدامات پر ٹوکنا بھی جرم نہیں سو اپوزیشن کو اپنا ناقدانہ کردار ادا کرنا چاہئیے۔ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا اصل جمہوریت ہے۔ اپوزیشن کا کام حکومتی پالیسیوں کے نقائص کی نشاندہی کرنا ہے۔ حکمرانوں اور ان کی ٹیم کے افراد کے قول و فعل کا آپریشن کرنا بھی اپوزیشن کا حق ہے۔ ہمارے نزدیک حکومت میں شامل یا اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ہوں ان کے اندر اختلاف کرنے اور اختلاف رائے برداشت کرنے کی رسم پڑنی چاہئیے۔ اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ حکمران جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن میںوسیع تر مشاورت کا فقدان ہے ماضی قریب میں پارلیمانی پارٹی کے باقاعدگی سے اجلاس ہوا کرتے تھے جس میں وزراء سمیت ممبران اسمبلی قیادت کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کیا کرتے لیکن الیکشن 2013ء کے بعد اس اچھی روایت کو ترک کر دیا گیا ہے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے مخصوص نشستوں کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کا ایک اجلاس ہوا تھا پھر چراغوں میں روشی نہ رہی۔ لگ بھگ آٹھ ماہ ہو چکے حکمران اپنے ساتھیوں کے د رمیان بیٹھ کر اپنے اعمال کا جائزہ لینے کے لئے تیار نہیں ہیں ضلع وار ممبران سے ملاقاتیں پارٹی اجلاس کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں کہ ان ملاقاتوں میں ممبران اسمبلی اپنے حلقے کے کاموں سمیت ذاتی کام لے کر آتے ہیں جہاں تک سیاسی پارٹیوں کے اندر کا معاملہ ہے وہاں بھی برا حال ہے، سیاسی کارکن ایک طرف رہے بڑے بڑے جغادری لیڈر نظر انداز ہو رہے ہیں۔ حکومتی پارٹی ہو یا اپوزیشن جماعتیں قائدین چند لوگوں کے حصار میںرہتے ہیں جب کہ دیگر ساتھی عہدیدار احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں صدر مسلم لیگ ن نواز شریف اور سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا کے درمیان پارٹی امور پر ملاقات غالباً چھ ماہ میں صرف ایک مرتبہ ہوئی اور وہ بھی بے نتیجہ رہی۔ اسی طرح ان دنوں پاکستان تحریک انصاف میں بھی بے چینی دیکھی جا سکتی ہے صوبائی دارالحکومت میں انصاف مرکز یا ورکرز سپورٹ کے نام سے پارٹی کے نمایاں لوگوں کا اکٹھا ہونا اسی احساس محرومی کا نتیجہ ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن 2013ء میں ثابت کیا کہ ملک بھر کی طرح لاہور میں بھی ان کی مقبولیت قابل رشک ہے۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کا صدر لاہور عبدالعلیم خان اتنے وسائل کا مالک ہے کہ الیکشن 2013ء سے پہلے اس نے شاہراہ قائد اعظم جیسے قیمتی علاقے میں پارٹی کا لاہور آفس بنایا اور اب گلبرگ جیسے پوش علاقے میں ایک خوبصورت عمارت کو لاہور آفس کی شکل دے دی ہے جس کا افتتاح عمران خان کرنے والے ہیں۔ پارٹی کے صوبائی صدر اعجاز چودھری اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر یاسمین راشد پنجاب بھر میں پارٹی منظم کرنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے صدر نور محمد بھابھا اور سنٹرل پنجاب کے صدر بیرسٹر  منصور سرور ان کے معاون ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال کی کارکردگی بھی قابل ستائش ہے تاہم اس سب کے باوجود ’’انصاف مرکز‘‘ یا ورکرز سپورٹ گروپ جو بھی نام دیںوجود میں آگیا ہے۔ اگر ہم حکمران جماعت مسلم لیگ ن کا جائزہ لیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت حمزہ شہباز  شریف، وزیر اعلیٰ  کے مشیر خواجہ احمد حسان مسلم لیگ ن کے صدر پرویز ملک ، جنرل سیکرٹری  خواجہ عمران نذیر بہت زیادہ متحرک ہیں، یہ تمام لوگ  دن میں کئی کئی پروگراموں اور اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ سیاسی کارکن بھی ان کے ہمراہ اور آس پاس ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ ن میں بھی مسلم لیگ ورکرز آرگنائزیشن کے نام سے ایک پلیٹ فارم وجود میں آگیا ہے اور اس کے پرچم تلے سینئر مسلم لیگی کارکن اکٹھے ہورہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ ’’انصاف مرکز‘‘ ورکرز سپورٹ گروپ ہو یا مسلم لیگ ورکرز  آرگنائزیشن ان تمام کی امیدیں  اپنے اپنے پارٹی سربراہ کے ساتھ ہی وابستہ ہیں لیکن بہر حال ان میں کوئی ایسا احساس محرومی یا عدم تحفظ جنم لے رہا ہے جس کے باعث وہ کارکنوں کی قوت مجتمع کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو اپنے کارکنوں کی قدر کرنی چاہئیے اور پیپلز پارٹی و مسلم لیگ ق کے حشر سے سبق سیکھنا چاہئیے جنہیں اپنی ماضی کی روایات و کارکردگی کے باوجود کارکنوں کی کھیپ  سے محروم ہونا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے میاں منظور وٹو اور مسلم لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کارکنوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی اپنی پارٹی میں لانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کے ہمراہ اب مونس الہی بھی آ ملے ہیں جنہوں نے اس ہفتے مسلم لیگ  ہائوس میں یوتھ کنوینشن منعقد کیا اور وہاں پرجوش تقریر کی۔ انہوں نے نوجوانوں کو سرمایہ قرار دیا اور آئندہ اپنے ساتھ لے کر چلنے کا عزم ظاہر کیا۔ اب دیکھتے ہیں اس سلسلے میں ان کی جدوجہد جاری رہتی ہے یا پھر وہ بیرون ملک پرواز کر جائیں گے کہ ماضی قریب میں ان کا یہی رویہ سامنے آیا ہے۔متذکرہ بالا جماعتوں کے برعکس  جماعت اسلامی نئے انداز میں سامنے آئی ہے۔ جس کے انتخابات بلاشبہ ان کے اپنے طریقہ کار کے مطابق ہوئے جس میں ان کی جماعت کی مجلس شوری کے نامزد  کردہ تین افراد میں سے ایک سراج الحق کو رائے دہندگان نے اپنا نیا امیر منتخب کیا ۔ امیر اور سیکرٹری جنرل کے عہدوں پر فائز افراد کی جگہ کسی تیسرے کو امیر منتخب کرنا بہت سے لوگوں کو حیران کر گیا۔ جماعت اسلامی کے ترجمان کہتے ہیں کہ اس الیکشن میں کسی کی جیت یا شکست  نہیں ہوئی کہ ہماری جماعت کے آئین  میں مغربی نظام کی طرح ازخود کوئی امیدوار نہیں ہوتا۔یہ ٹھیک ہے  لیکن قاضی حسین احمد مرحوم نے جماعت اسلامی کو جو عوامی انداز دئیے اس کے بعد لوگوں کا جماعت اسلامی کے الیکشن کو دیگر جماعتوں کے انتخابات کی طرح لینا بنتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...