لاہور (جواد آر اعوان/ نیشن رپورٹ) عسکری حکام نے سیاسی قیادت کو آگاہ کیا ہے کہ طالبان کے مطالبے پر قبائلی علاقے میں مذاکرات کیلئے ’’فری زون‘‘ قائم نہیں کیا جاسکتا، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے دی نیشن کے نمائندے کو بتایا کہ فوج امن مذاکرات میں اہم فریق ہے اور اس نے حکومت کو پیغام دیا ہے کہ طالبان کے مطالبے پر قبائلی علاقے سے ایک فوجی بھی واپس نہیں بلایا جائیگا اور سکیورٹی فورسز سیز فائر سے پہلے والی پوزیشن کسی صورت تبدیل نہیں کریں گی، طالبان شوریٰ نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے ہونے والی ملاقات میں کہا تھا کہ پاک فوج کی قبائلی علاقوں میں موجود چیک پوسٹیں انکی آزادانہ نقل و حرکت میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ذرائع کے مطابق سینئر سکیورٹی حکام کا خیال ہے کہ مذاکرات کیلئے ایک علاقہ مخصوص کرنا سکیورٹی حوالے سے ٹھیک نہیں ہوگا۔ عسکری حکام کا موقف ہے کہ تحریک طالبان کی قیادت اگر مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو انکو سکیورٹی فورسز سے ڈرنا نہیں چاہئے کیونکہ فوج حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کر رہی ہے جس طرح مذاکرات کیلئے فوج کی طرف سے حکومت کے کہنے پر سیزفائر کا بھی اعلان کیا گیا اور جب تک مذاکرات جاری ہیں فائر بندی رہے گی، حکومتی کمیٹی میں شامل ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت ’’فری پیس زون‘‘ کے قیام کے حوالے سے طالبان کے مطالبے کو ماننے پر غور کر رہی ہے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ مذاکرات کسی صورت تعطل کا شکار نہ ہوں تاہم حکومتی کمیٹی میں شامل 2 ارکان کی طرف سے اسی طرح کے کسی بھی مطالبے کو تسلیم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ سے مذاکرات کسی ایک نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ہی ہونے چاہئیں اور ان ملاقاتوں کو انتہائی خفیہ بھی رکھا جانا چاہئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے بڑے گروپ مذاکرات کی کامیابی کیلئے نجیدہ ہیں اور ’’پیس زون‘‘ بنانا حکام کے ٹھیک نہیں ہوگا اور اس سے طالبان کی حمایت میں اضافہ بھی ممکن ہوسکتا ہے، اس سوال پر کہ کیا طالبان سیز فائر میں توسیع کریں گے؟ انکا کہنا تھا کہ حکومت اور طالبان کی طرف سے سمیع الحق کہہ چکے ہیں کہ جب تک مذاکرات جاری ہیں سیزفائر رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کی مدت ختم ہوئے دو روز ہو گئے ہیں اور امید ہے طالبان کی طرف سے یہ برقرار رکھی جائیگی۔ انکا کہنا تھا کہ سیزفائر کی مدت ختم ہونے پر قبائلی علاقوں میں صورتحال ایک بار پھر سے حساس ہو گئی ہے ان کے مطابق حکومت بھی اس وقت پرویز مشرف کے معاملات میں مصروف ہے اور آئندہ چند روز تک ہی حکومت اور طالبان کے مذاکرات کا اگلا دور ہو سکے گا، حکومتی کمیٹی کے سینئر رکن کے مطابق طالبان کے ایسے قیدی جو بالکل عسکریت پسندی میں ملوث نہیں ان کو رہا کرنے کا فیصلہ تقریباً ہو چکا تاہم تشدد کے واقعات میں ملوث طالبان کی رہائی فوج کی مشاورت اور رضامندی کے بغیر ممکن نہیں اس دوران طالبان کمیٹی کے سینئر ارکان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ حکومت کو امن مذاکرات میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے اور جتنی جلدی ہو اس پر معاملہ آگے بڑھانا چاہئے۔
پشاور (آن لائن+ نوائے وقت رپورٹ+ رائٹرز)کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ سیزفائرکے بغیر بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں، جنگ بندی میں توسیع کا فیصلہ نہیں ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ترجمان طالبان کا مزیدکہنا ہے کہ جنگ بندی کے دوران کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ مرکزی شوریٰ کا اجلاس جلد متوقع ہے اور مشاورت مکمل ہونے کے بعد ہی سیزفائر کا فیصلہ کیا جائیگا۔ جنگ بندی پر مشاورت جاری ہے، اختلاف رائے بھی موجود ہے۔ قبل ازیں طالبان کمانڈر عمر خالد خراسانی نے کہا ہے کہ سیزفائر کی مدت ختم ہو چکی اس میں توسیع نہیں ہوئی، اب جنگ دوبارہ شروع ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا فائربندی کے دوران حکومت کی طرف سے وعدہ شکنی ہوئی۔ ہمارے ساتھی گرفتار اور ماورائے عدالت قتل کئے گئے۔ پچاس طالبان کو گرفتار اور 20 کو قتل کیا گیا۔ اس وقت ساری اسلامی دنیا سخت امتحان میں ہے مگر پاکستان کو زیادہ مشکلات ہیں۔ ناقص نظام مشرف کو سزا نہیں ہونے دیگا اور ان کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا۔ مشرف کو سزا ہوئی تو شریک جرنیل اور سول حکام بھی زد میں آئیں گے۔ فوج کی حکومت ہے، مشرف ضرور باہر چلے جائیں گے۔ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی شکست پر عمر خالد خراسانی کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں کھیلے جا رہے ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں ہار گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو روتے ہی رہنے دیا ہے۔ جنگ بندی میں توسیع نہ ہونے کا نقصان پاکستان کو ہی ہوگا طالبان کو نہیں۔ ان کا کہنا تھا ملک کا بااثر طبقہ جنگ چاہتا ہے۔ رائٹرز کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ حکومت امن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔ دریں اثناء نجی ٹی وی کے مطابق طالبان کمانڈر عمر خالد خراسانی نے کہا ہے کہ میں نے سوشل میڈیا پر کالم لکھا میرا سیاسی بیان نہیں تھا۔ میڈیا نے طنزیہ مضمون سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کیا۔ مذاکرات پر طالبان کا مئوقف مرکزی ترجمان ہی جاری کریں گے۔ رکن طالبان سیاسی شوریٰ اعظم طارق نے کہا ہے کہ جنگ بندی سے متعلق شاہد اللہ شاہد کا بیان تحریک طالبان پاکستان کا مئوقف نہیں، طالبان کا مئوقف سیاسی شوریٰ اور میڈیا کمیٹی کی باضابطہ منظوری کے بعد جاری ہوتا ہے۔ گذشتہ روز جاری ہونے والے شاہد اللہ شاہد اور عمر خالد خراسانی کے دونوں بیانات سیاسی شوریٰ اور میڈیا کمیٹی نے منظور نہیںکئے تھے۔ جنگ بندی سے متعلق سیاسی شوریٰ اور میڈیا کمیٹی جلد طالبان کا مئوقف پیش کرے گی۔ قبل ازیں طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ جب تک مذاکرات جاری ہیں فائر بندی جاری رہے گی لیکن حکومت مذاکرات کے حوالے سے تاخیر سے کام نہ لے۔ حکومتی جواب سامنے آنے کے بعد طالبان سیز فائر میں توسیع کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔ امن ہی اصل ایجنڈا ہے جس پر پیش رفت ہونی چاہئے۔ قیدیوں کی رہائی اور اعتماد کی بحالی کیلئے حکومت کے جواب کے منتظر ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے چند مسائل پر وزیراعظم نوازشریف سے مشاورت کے لئے وقت مانگا تھا لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ دریں اثناء طالبان رابطہ کار کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر مولانا یوسف شاہ کا کہنا ہے کہ ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود آج بھی طالبان کی سیز فائر برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت اور طالبان دونوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ طالبان کی جانب سے جب تک سیز فائر کے خاتمے کا اعلان نہیں ہوتا سیز فائر برقرار ہے۔