اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کو پانچ سال تک پاکستان واپس نہ آنے کی شرط پر مبنی خفیہ معاہدے کی پیشکش کی گئی تھی جسے سابق صدر نے ٹھکرا دیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کو پیشکش کی گئی کہ وہ پانچ سالہ بانڈ بھریں کہ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے مگر پرویز مشرف نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے باہر جائیں گے ڈیل کرکے نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کا معاملہ حل ہونا چاہئے ورنہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ اگر قانونی طور پر مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ ہوتی تو پھر حکومت کو اتنی لمبی چوڑی میٹنگز کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ آل پاکستان مسلم لیگ کی ترجمان آسیہ اسحاق نے احمد رضا قصوری کے دعوے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کو پیشکش کوئی نئی بات نہیں۔ معاہدے کے بجائے دھمکی کا لفظ استعمال کیا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ پرویز مشرف کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ بانڈ بھر کر نہیں جائیں گے تو ایسی کی تیسی ہو جائے گی۔ یہ پیشکش فرد جرم عائد ہونے سے پہلے اور بعد میں کی گئی۔ پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرویز مشرف کے ایک اور کیل انور منصور نے کہا کہ ای سی ایل کے معاملے پر حکومت کے جواب سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ ای سی ایل معاملہ حکومت اور مشرف کے درمیان ہے۔ ہائیکورٹ نے ای سی ایل میں نام مشرف کی پیشی سے مشروط کیا تھا۔ ہائیکورٹ کا ای سی ایل کا حکم مشرف کی پیشی کے بعد ختم ہوگیا۔ عدالت نے واضح حکم دیا ہے کہ پرویز مشرف کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کا معاملہ حکومت کیلئے مشکل کا باعث بنا ہوا ہے۔ پرویز مشرف نے کہا پاکستان سے ’’ہیر رانجھے‘‘ والا تعلق ہے۔ ملک نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے 40سال تک سرحدوں کی حفاظت کی ہے۔ احمد رضا قصوری نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ پرویز مشرف کو پیشکش کس نے کی۔ مشرف کے ترجمان جنرل (ر) راشد قریشی نے احمد رضا قصوری کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی خفیہ ڈیل نہ تو انکے علم میں ہے اور نہ ہی ایسی کسی ڈیل کی پیشکش پرویز مشرف کو کی گئی ہے۔ راشد قریشی نے کہا کہ پرویز مشرف خفیہ ڈیلوں پر یقین نہیں رکھتے۔ خفیہ ڈیل سے متعلق کوئی علم نہیں۔ پرویز مشرف، حسین حقانی جیسے آدمی نہیں۔ترجمان کی حیثیت سے میرے علم میں کچھ نہیں، خفیہ ڈیل سے متعلق کوئی علم نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پرویز مشرف کو بانڈ بھرنے کی پیشکش نہیں کی‘ احمد رضا قصوری جھوٹ بول کر پھر سے مشرف کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ احمد رضا قصوری شدید صدمے سے دوچار ہیں کیونکہ پرویز مشرف نے قصوری کو قانونی ٹیم سے نکال دیا ہے، اس لئے وہ اب بے پرکی اڑا رہے ہیں، میاں نواز شریف نے سب سے مشاورت کی لیکن سب کی ایک ہی رائے تھی کہ حکومت کا کام کسی کو پھنسانا نہ ہی بچانا ہوتا ہے، ہم دعاگو ہیں کہ اللہ مشرف کی والدہ کو صحت دے۔ حکومت کام یہ ہے کہ قانون کی معاونت کی جائے اور قانون جو کہتا ہے اس میں کسی کو دھکا دیا جائے اور نہ ہی رکاوٹ پیدا کی جائے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے اپنے قانونی ماہرین سے مشاورت کی۔ سب کی رائے تھی کہ آٹھ اپریل 2013ء کا حکم موجود ہے اس کی موجودگی میں حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ حکومت اس پر کوئی بات کر سکے۔ مشرف کے وکلاء نے غلطی کی کہ جب وہ ٹرائل کورٹ میں گئے تو وہاں انہوں نے یہ درخواست دائر کردی کہ انہیں ای سی ایل سے نکالا جائے لیکن ٹرائل کورٹ انہیں اس سے نہیں نکال سکتی کیونکہ ان کے پاس سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے اور کوئی بھی کورٹ سپریم کورٹ کے حکم کو رد نہیں کرسکتی اور اگر وہ ٹرائل کورٹ میں درخواست دیتے ہیں کہ انہیں باہر جانے کی اجازت دی جائے اور اگر وہ منظور ہو جاتی ہے تو پھر یہ ہوسکتا تھا کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے یا نہیں لیکن یہ سب ان کے وکلاء کی غلطی کی وجہ سے ہوا، ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ پرویز مشرف کی والدہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مشاورت میں انہیں وطن لانے یا نہ لانے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی لیکن ہماری ہمدردیاں ان کیساتھ ہیں اور ہم ان کیلئے دعاگو ہیں کہ اللہ انہیں صحت یاب کرے اور یہ کیا جاسکتا ہے کہ انہیں وطن لاکر ان کے علاج کے بہترین انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ ہماری پوری توجہ اس طرف ہے کہ پاکستان کو امن کا گہوارا بنایا جائے لیکن بہت سی چیزیں ہمیں ورثے میں ملی ہیں جن میں پرویز مشرف کا کیس بھی شامل ہے۔ ہماری ترجیح ہے کہ پاکستان کو تمام تر مشکلات سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈال دیں۔ مشرف کا قانونی مسئلہ ہے اور اسے قانونی ماہرین کی مشاورت سے ہی طے کیا جائے گا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا ہر شہری قانون کا احترم کرتا ہے۔