سوشل میڈیا کا محاذ

پاکستان میںنہ بادشاہت ہے اور نہ آمریت، اس لئے یہاں وزرات اطلاعات اور وزارت انفار میشن ٹیکنالوجی کی کوئی ضرورت نہیں، ن لیگ تو آزادی اظہارا ور جمہوریت کی چیمپیئن بنتی ہے ، اس لئے پرویز رشید اور انوشہ رحمن کے لئے کوئی اور کام ڈھونڈ لیا جائے۔
اگر یہ وزارتیں از بس ضروری ہیں تو ان کو اکٹھا کر کے کسی ایسے شخص کو ان کا قلمدان سونپا جائے جو بیک وقت میڈیا اور آئی ٹی کے رموز سے واقف ہو، اس وقت وزیر اطلاعات ، آئی ٹی کی مہارت سے مالا مال نہیں ہو سکتے اور وزیر مملکت آئی ٹی کو میڈیا کے اسرارو رموز سے آگہی نہیںہو سکتی۔بنیادی طورپریہ دورانفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے ،گوگل،یو ٹیوب، فیس بک،ٹوئٹر،واٹ ایپس،ہینگ آئوٹ، اسکائیپس،وائیبر اور اسی طرح کے نت نئے شاخسانے کھڑے کر دیئے گئے ہیں جو اطلاعات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں، اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھی انہی کے سہارے کی ضرورت ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جغرافیائی سرحدوں کو بھی پامال کر کے رکھ دیا ہے، کسی بھی ملک کا شہری کسی دوسرے ملک کے شہری سے کسی ویزے، کسی کسٹم اور کسی امیگریشن کنٹرول سے ا ٓزاد ہو کر رابطہ کر سکتا ہے،گوگل کی کوشش یہ ہے کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں مفت انٹرنیٹ فراہم کر دے، پھر دیکھئے کیا انقلاب برپا ہوتا ہے،عالم عرب کی بہار کے جھونکے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے چشم زدن میں چاروں اور پھیل گئے تھے۔پیغام رسانی کا یہ ذریعہ اسپیشل برانچ کی نظروںسے بڑے عرصے تک مخفی ہی رہا مگر اب راز کھلاہے کہ امریکہ تو ا ستاد نکلا، اسکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی نظر سے کوئی پیغام ،کوئی ای میل ، کوئی فو ن کال محفوظ نہیں۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل بھی اس ادارے کی زیر نگرانی ہیں، وینزویلا کی صدر نے تو اس جاسوسی کے خلاف احتجاج کے طور پر امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا۔ اور تو اور، امریکی ڈیموکریٹ حکومت کے ہوتے ہوئے سابق ڈیمو کریٹ صدر جمی کارٹر بھی اس جاسوسی سے نہیں بچ سکے اور احتیاط کے طور پر اب وہ اپنے خطوط ہاتھ سے لکھتے ہیں، پھر خود پیدل چل کر کسی پوسٹ بکس میں ڈالتے ہیں۔
ہما شما کس قطار میں ہیں۔ امریکہ نے ہر ایک کی جی بھر کے جاسوسی کی ، مگر پہلے وکی لیکس نے اس جاسوسی نظام میں نقب لگائی، پھر سنوڈن صاحب نے رہی سہی کسر نکال دی۔
 دوسری طرف عالمی حکومتوں اور آئی ٹی کے اداروںکے درمیان ایک سرد جنگ کی کیفیت ہے۔گوگل اور مائکروسافٹ دیو ہیکل جن ہیں، ان کا خیال تھا کہ کوئی قانون ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتا، مگر انہیں وائٹ ہائوس طلب کیا گیاا ور دھمکی دی گئی کہ وہ حکومت کے ساتھ نہ چلے تو انہیں سلاخوںکے پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ برطانوی وزیر اعظم کھلم کھلا گوگل کو تنبیہہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنی سائٹ سے بچوںکے خلاف زیادتی پر اکسانے والا مواد ہٹائے، برطانوی حکومت نے ہی مبینہ طور پر سنوڈن کے انکشافات شائع کرنے والے دنیا کے طاقتور اخبار گارجین کو دھمکی دی ہے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا تو اخبار طاقت کے زور پر بند کر دیا جائے گا۔کئی ماہ پہلے گارجین ہی کو مجبور ر کردیا گیا تھا کہ وہ اپنی ہارڈ ڈسکوں سے سنوڈن کا مواد حذف کر دے۔میں اسے ٹیکنالوجی کا اسقاط حمل قرار دوں گا۔
حکومت اور ٹیکنالوجی کی ایک جنگ ترکی میںلڑی جا رہی ہے۔یہاں حکومت بظاہر نیک نام ہے، اسکے چہرے پر جمہوری لبادہ ہے لیکن اس نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے آزادی اظہار کے رستے بلاک کر دیئے ہیں۔پہلے فیس بک کو بند کیا گیا، عدالت نے یہ پابندی خلاف قانون قرار دی تو اگلا وار ٹوئٹر پر کیا گیا۔ پاکستانی حکومت کا پسندیدہ تریںملک اس وقت ترکی ہے، یہ اس کے لئے ہر شعبے میں رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی کی میٹرو بسیں لاہور میں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں جبکہ اطراف کی سڑکوںپر لاکھوں گاڑیاں گھنٹوںٹریفک میں پھنسی رہتی ہیں ، یہ میٹرو اب پنڈی کو تحفے میںملے گی، پھر ملتان اور شاید کراچی، اور اسی ترکی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہماری حکمران پارٹی نے قومی اسمبلی میںیو ٹیوب پر پابندی ہٹانے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ مطالبہ پیپلز پارٹی نے پیش کیا تھااور اس کی دلیل تھی کہ یو ٹیوب پر پابندی عملی طور پر مئوثر ثابت نہیںہوئی کیونکہ پراکسی سرورز کے ذریعے ہر کوئی اسے چلا رہا ہے۔اگر کسی کو یاد ہو تو جیسے بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ن لیگی وزیر اعلی مینار پاکستان پر احتجای ٹینٹ آفس لگا کر بیٹھ گئے تھے اور انتخابی تقریروںمیں وعدے کرتے رہے کہ لوڈ شیدنگ چھ ماہ سے دو سال میں ختم کر دی جائے گی،اسی طرح ن لیگ نے یو ٹیوب پر پابندی ہٹانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔میرے قارئین کو میرا یہ تبصرہ یاد ہو گا کہ ن لیگ حکومت میںا ٓ گئی ہے مگر یہ سوشل میڈیا پر پابندیاں ہٹانے کی بجائے مزید سخت کرے گی کیونکہ اس محاذ پر اس کی وہ درگت بن رہی ہے کہ اللہ ہر ایک کو ایسے حشر سے بچائے ، میں وہ سب کچھ یہاںنقل نہیںکر سکتا جو سوشل میڈیا پر حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔میری اخلاقیات ان میں سے چند ایک ریمارکس بھی دہرانے کی ا جازت نہیں دیتی۔
یہ احساس بھی ہر کسی کو ہے کہ پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے مقابلے میں ن لیگ کو فرینڈلی میڈیا ملا ہے، اس لئے لوگ مجبور ہیں کہ اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالیں۔تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے بعد تو حشرنشر ہو جائے گا اور لوگ ٹی وی چینل کے محتاج نہیں رہیں گے، سب کچھ سوشل میڈیا پر چلے گا اور بریکنگ نیوز کی شکل میں چلے گا ، ٹکروں کی شکل میں چلے گا۔ٹاک شوز کی شکل میں چلے گا، کسی بھی واردات کی وڈیو چند لمحوں میں دنیا بھر میں پھیلائی جا سکے گی۔حکومت بسم اللہ کرے، نیلامی کی گھنٹی تو بجائے، اس نے تو نیلامی میںڈالروں سے جھولی بھرنی ہے مگر لوگ اس انتطار میں ہیں کہ نیا دور آئے تو سہی کہ وہ حکومت یا اپنے کسی بھی مخالف سے دو دو ہاتھ کر سکیں!
آئی ٹی نے پاکستان کو انٹرنیشل کالز کی مد میں اربوںکھربوں کے نقصان سے دو چار کر دیا ہے۔ہر تیسری کال کسی جعلی ایکس چینج سے آ رہی ہے۔حکومت میںکوئی ایسا ضرور ہو گا جو اس طرف سے آنکھیںبند رکھنے کا معاوضہ لیتا ہو گا لیکن وہ ایک سنگین جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ایک شائع شدہ سروے رپورٹ کے مطابق اس مد میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا سالانہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس میں وائیبر اور اسکائیپس کابھی رول ضرور ہے مگر حکومت نے کالیں مہنگی کر کے گرے ٹریفک کے فروغ کی راہ خود ہموار کی ہے اورا س پر قابو پانے کے لئے ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت چپ سادھے بیٹھی ہے۔
اپنی معلومات میں اضافے کے لئے میںیہ جاننا چاہتا ہوں کہ پنجاب کے وزیر اعلی جب اندرون ملک یا بیرون ملک بیٹھ کر وڈیو لنک پر سرکاری افسروں سے کانفرنس کرتے ہیں تو کیا وہ قانونی میڈیا استعمال کرتے ہیں ۔
کہاں تک سنائوں، کہاںتک سنو گے

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...