پاکستان کی اردو صحافت کے مہر درخشاں دو قومی نظریے کے محافظ اور وکیل، آمریت کے دشمن اور جمہوریت کے پاسبان، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے مدیر اعلیٰ جناب مجید نظامی اپنے 87 ویں یوم پیدائش پر یاد آ رہے ہیں تو انکی نصف صدی سے زیادہ صحافتی زندگی کے درخشاں کارنامے اور انکے ذاتی کردار میں مثالیت اور مرد مومن کے آثار یاد آ رہے ہیں لیکن مجھے یہ احساس ملول بھی کر رہا ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کی پلاٹینیم جوبلی کے موقع پر جو 23 مارچ 2015ء کو منائی گئی وہ ہم میں موجود نہیں تھے۔ ہماری قومی تاریخ کا یہ واقعہ ہمیشہ درخشاں رہے گا کہ قرار داد پاکستان اور ’’نوائے وقت‘‘ کا صحافتی سفر ایک ہی روز شروع ہوا۔ ’’نوائے وقت‘‘ جسے جناب حمید نظامی نے قائد اعظم محمد علی جناح کے پرشفقت پیغام سے شروع کیا تھا ہندو پریس کی یلغار میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان اور پاکستان کی جدوجہد میں پیش پیش تھا اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 14 اگست 1947ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی قیادت میں کفرستان ہند میں مسلمانوں کا علیحدہ وطن تشکیل پا گیا تو اس میں ’’نوائے وقت‘‘ کی صحافت اور حمید نظامی کی سیاسی دانش و بصیرت نے فعال کردار ادا کیا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان اقتدار پسند، منصب و جاہ کے حریص اور مفاد پرست جاگیر دار سیاستدانوں اور سول اور ملٹری افسروں نے اپنے تسلط میں لے لیا۔ جمہوریت کے پیٹ میں آمریت نے چھرا گھونپ دیا اور پھر پاکستان کا افقی اور عمودی ارتقاء رک گیا۔ اس دور میں ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنا مثبت کردار ادا کیا اور تحفظ پاکستان کے لئے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔
جناب حمید نظامی نے 1962ء میں ایوب خان کے مارشل لاء کے جبر کا مقابلہ کرتے کرتے وطن عزیز کیلئے اپنی جان کی قربانی دیدی۔ قائد اعظم کو احساس تھا کہ انکی جیب میں کھوٹے سکے تھے۔ انکی وفات کے بعد یہ کھوٹے سکے اقتدار پر تو قابض ہو گئے لیکن سیاست کے جمہوری بازار میں چل نہ سکے۔ بالآخر قائد اعظم کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ حمید نظامی کی جیب میں اپنے چھوٹے بھائی مجید نظامی کی صورت میں زر خالص کا ایک ہی سکہ تھا جس کی تربیت انہوں نے اقبال کے ارشادات، قائد اعظم کی عملی سیاست، دو قومی نظریے کی اساسیات، دین فطرت کے ضابطوں اور تشکیل و اثبات پاکستان کے اصولوں پر کی تھی۔ حمید نظامی صاحب نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی تو مطمئن تھے کہ انہوں نے ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت اپنے تربیت یافتہ ہاتھوں میں دی ہے اور قائد اعظم کی رہنمائی میں انہوں نے جس نصب العین کی تعمیل و تکمیل کا سفر قرار دادپاکستان کی منظوری کے روز کیا تھا اسے مجید نظامی پامردی اور جرات مندی سے جاری رکھیں گے اور اقتدار پر قابض کوئی طاغوتی طاقت انہیں اپنے مذموم باطل مقاصد قبول کرنے پر مائل نہ کر سکے گی اور واقعہ یہ ہے کہ جناب مجید نظامی نے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کی جانکاہ علالت پر لندن سے لاہور آکر انکے بستر مرگ پر جو عہد زعمائے لاہور کی موجودگی میں جناب حمید نظامی سے کیا تھا اسے اپنی زندگی کے آخری سانس تک قائم رکھا اور ’’نوائے وقت‘‘ کی یہ نظریاتی وراثت اپنی بیٹی رمیزہ مجید نظامی کو سونپ دی جس کی تربیت انہوں نے اپنی زندگی میں جناب حمید نظامی مرحوم کے خطوط پر کی تھی اور اب انہیں یاد کیا جا رہا ہے تو وہ ’’بانی نوائے وقت‘‘ جناب حمید نظامی کے ساتھ ’’معمار نوائے وقت‘‘ کے سابقے سے سرفراز ہو چکے ہیں۔ میں نے پلاٹینیم جوبلی سپیشل کے سرورق پر اپناذاتی تاثر پیش کیا تو یہ لکھے بغیر نہ رہ سکا۔
مجید نظامی 3 اپریل 1928ء کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد لاہور آ گئے جہاں انکے بھائی حمید نظامی اسلامیہ کالج لاہور میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر کی حیثیت میں سیاست میں سرگرم عمل تھے۔ انہیں قائد اعظم کی شفقت اور سرپرستی بھی حاصل تھی انہیں کے ارشاد پر انہوں نے ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا تھا۔ تعلیمی دور میں مجید نظامی کی تربیت بھی جدوجہد پاکستان کے فعال دور میں ہوئی۔ حمید نظامی صاحب نے انہیں روز اول سے ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ وابستہ رکھا۔ پنجاب میں خضر حیات کو یونیسنٹ حکومت کیخلاف تحریک چلی تو مجید نظامی احتجاجی جلسے جلوسوں میں پیش پیش تھے۔ ایک جلوس میں طالب علم عبدالمالک کو شہید کیا گیا تو مجید نظامی انکے ساتھ کھڑے تھے۔ عبدالمالک شہید کے خون کے قطرے انکی قمیض پر بھی گرے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن گئے تو نوائے وقت کے ساتھ عملی صحافت کے تعلق کو قائم رکھا۔ جناب حمید نظامی کی وفات کے بعد انہوں نے ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور چار آمروں کے دور میں نامساعد حالات کا سامنا جرات اور پامردی سے کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی نظریاتی جہت کو استحکام و فروغ دیتے ہوئے ’’نوائے وقت‘‘ کو طباعت و اشاعت کیلئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ کراچی، اسلام آباد اور ملتان سے نوائے وقت کے الگ ایڈیشن جاری کئے۔ انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘۔ ہفتہ وار ’’ندائے ملت‘‘ ، ’’فیملی میگزین‘‘ بچوں کا رسالہ ’’پھول‘‘ اور ’’وقت‘‘ مجید نظامی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔کڑی تنقید پر حکمران ناراض ہو جاتے تو ’’نوائے وقت‘‘ کے سرکاری اشتہارات بند کر دیئے جاتے لیکن نظامی صاحب نے اپنے حق پرستانہ موقف پر کبھی آنچ نہیں آنے دی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے کبھی گریز نہ کیا۔ صحافت کی تاریخ شاہد ہے کہ نظامی صاحب نے سرکاری اشتہارات کی بھیک کبھی نہیں مانگی بلکہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے مطلق العنان آمر بھی ’’نوائے وقت‘‘ اور جناب مجید نظامی کی چشم التفات کے محتاج رہتے تھے لیکن نظامی صاحب نے ہمیشہ قائد اعظم کی تعلیمات اور حمید نظامی کے مشن کو قائم رکھا اور صحافت کی آبرو پر آنچ نہ آنے دی۔ صحافت کا یہ سفر کڑی مشقت کا تھا اور مجید نظامی جس حوصلے اور جرات مندی سے اسے انجام دے رہے تھے اسکے نتیجے میں وہ تین مرتبہ اختلاج قلب کا شکار ہوئے۔ بائی پاس آپریشن کے بعد واپس آتے تو پھر عزم و استقلال سے اپنے صحافتی اور قومی فرائض انجام دینے لگتے اور 27 جولائی 2014ء کو وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو پاکستان اپنے اس محسن سے محروم ہو گیا جس نے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ ’’ایٹمی دھماکہ کر دو، ورنہ قوم آپکا دھماکہ کر دیگی‘‘ جنرل ضیاء الحق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا ’’تسیں ساڈی جان کدو چھڈو گے‘‘۔ جنرل پرویز مشرف کے سامنے ایک پریس کانفرنس میں کہا آپ نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی مڈ نائٹ کال پر نہیں بلکہ انکے نائب پاول کی کال پر سرینڈر کردیا۔ آپکو بعد میںآمر صدر پرویز مشرف نے اپنی پریس کانفرنس میں کبھی نہیں بلایا۔ جناب مجید نظامی (مرحوم) کی سالگرہ پر انہیں یاد کر رہا ہوں تو مجھے انکی حق گوئی، بے باکی اور جرأت مندی کے بہت سے واقعات یاد آ رہے ہیں لیکن جگہ کی قلت لکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ آئیے انکی مغفرت اور ’’نوائے وقت‘‘ کی ترقی اور بقاء کیلئے دعا کریں۔