ڈاکٹر مجید نظامی‘ امیر کاروانِ صحافت

Apr 03, 2015

 سعیدخاور
    پاکستان میںاردو صحافت کی تاریخ تحریک جدوجہد آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں دو اہم اور تاریخی واقعات رو نما ہوئے۔ ایک تو یہ کہ قرارداد پاکستان پیش ہوئی جس کے نتیجے میں سات سال بعد پاکستان کا وجود قائم ہوااور دوسرا اہم واقعہ یہ تھا کہ اس تاریخی اجتماع میں پندرہ روزہ نوائے وقت کا پہلا پرچہ تقسیم ہوا۔ ان دنوں ہندو صحافت بام عروج پرتھی اوربرصغیرکے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے تصورکے لئے رائے عامہ ہموارکرنے کے لئے کوئی قابل ذکراخبارموجودنہیں تھا۔اس عظیم مقصد کے لئے قائداعظم کی نگاہ انتخاب نوجوان حمیدنظامی پرجاٹھہری۔چالیس کی دہائی میںحمید نظامی مرحوم مسلم طلبہ کی سیاست میں انتہائی سرگرم تھے اورانہیں قائداعظم کا اعتماد حاصل تھا۔ انہوں نے قائداعظم کی تحریک پرہی نوائے وقت کا اجراکیا اورتحریک پاکستان کے دورمیں ایک ایسی صحافت کی طرح ڈالی کہ جو قیام پاکستان اورپھراستحکام پاکستان میںانصاف پرمبنی معاشرت کے قیام اور عوام کی کردارسازی کا موجب بنی۔حمید نظامی مرحوم کی رحلت کے بعدڈاکٹرمجیدنظامی نے نوائے وقت کی باگ ڈورسنبھالی تو کسی کے یہ وہم وگمان میں نہیں تھا کہ مستقبل میں یہ اخبارایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کر کے پاکستانی طرزمعاشرت کی راہیں متعین کرے گا اوراسلام ٗپاکستان اورجمہوریت کے لئے قومی خدمات انجام دے گا۔اس کا ساراکریڈٹ ڈاکٹرمجیدنظامی کی حب الوطنی اورمحنت شاقہ کو جاتاہے جنہوں نے دن رات ایک کرکے قائداعظم محمدعلی جناح اورتحریک پاکستان کے عظیم سپاہی حمیدنظامی مرحوم کے مشترکہ خواب کوتعبیردے دی۔یہ ڈاکٹرمجیدنظامی کی جدوجہدکانتیجہ ہے کہ آج نوائے وقت ایک اخبار نہیں بلکہ ایک زندہ وجاویدتحریک ہے جس کی موجودگی میں دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ دیکھنے کی جسارت نہیں کرسکتے اور دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک نوائے وقت موجود ہے ٗ پاکستان اورپاکستانیت کو کوئی زک نہیں پہنچاسکتا۔
    میرااس تحریک سے دیرینہ رشتہ  ہے جس میں ٗ میں نے اپنی زندگی کے سنہری 27سال گزار دئیے۔میں نے ایک ایسے سماج میں جنم لیا جہاں ہرطرف وحشتیں ٗکلفتیں اوربے یقینیاں بکھری پڑی تھیں۔جہاں زمانہ ہرقدم پر دھکا اوردھوکا دیتا ہے۔ہماراسماج شہنشاہیت اور وڈیرہ شاہی کابدترین نمونہ تھا ٗجہاں آپ کوروایات کے قدموں میں ڈھیرہوکر کامیاب زندگی کے راستے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔میں نے زمانہ طالب علمی میں ان روایات سے بغاوت کا علم بلندکیا توبالادست قوتوں کے گماشتے میری جان کو آگئے۔ میں اپنی افتاد طبع اور مزاج کی جولانی کے سبب آزمائشوںمیں گھرکر رہ گیا تو میںنے اپنی آبائی جنم بھومی محراب والا ٗتحصیل احمدپورشرقیہ ضلع بہاول پور کے ریگستان ’’روہی‘‘میں کئی روزبے چین روح کی طرح گزار دئیے اور دن رات سوچتا رہا کہ مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہئے؟کیا میں اس جبر کے خلاف ہتھیار اٹھا لوں ٗیا میں قلم اور کتاب سے ناتا جوڑ کران نا انصافیوں کے خاتمہ کے لئے کوئی کردار اداکروں۔چندروز کے اس بن باس میں مجھے نئی راہیں سجھائی دیں اورمیں نے فیصلہ کرلیاکہ پاکستان ہی میں ٗکسی نئی دنیا میںاپنی دریافت کروں گااوراپنے قلم سے غربت ٗغلامی اور ناانصافی کے خلاف جہادکروں گا۔ میں حوادث زمانہ سے گھبرا کراپنے خوددار ’’بابا‘‘حاجی امیربخش خان کی اجازت اورمہربان ’’اماں‘‘ امیرخاتون کی دعائیں لے کر صحرا سے ساحل کی طرف آنکلا۔میں نے حادثاتی طورپردسمبر1987ء میں نوائے وقت کراچی میں ملازمت اختیا رکی اورتین چار سالوں میں نوائے وقت کراچی کے مختلف انتظامی شعبوں میں خدمات انجام دیں اورپھر فیملی میگزین اورنوائے وقت کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں ٗجہاں میری ایک منتظم اورصحافی کے طور پر مدیرمحترم مجید نظامی نے بطور خاص ٗبراہ راست رہنمائی فرمائی۔نظامی صاحب کااعتمادپانے کے بعد میں نے پھرکبھی پیچھے مڑکرنہیں دیکھا ٗ میرے قدم آگے ہی آگے بڑھتے رہے اورکسی بھی لمحہ ڈگمگائے نہیں۔ البتہ میں نے اپنے قلم سے غربت ٗغلامی اور ناانصافی کے خلاف جہادکامقصد ہرقدم پرپیش نظر رکھا۔میں نے ڈاکٹرمجیدنظامی کی قربتوں میں کئی ماہ وسال بتائے اورانہیں قریب سے دیکھنے ٗسمجھنے اورسیکھنے کے وسیع مواقع ملے۔وہ ایک کامیاب انسان ٗسخت گیرمنتظم ٗبے باک صحافی اورمحب وطن نظریاتی شخصیت تھے۔وہ پاکستان کے عوام کو غربت ٗغلامی اور ناانصافی سے نجات دلانے کے لئے تمام عمر برسرپیکاررہے۔نوائے وقت کی پناہ گاہ  اورڈاکٹرمجیدنظامی کے سایہ عاطفت میں آنے کے بعد مجھے ادراک ہوا کہ نوائے وقت میری ہی نہیں اس ملک کے کروڑوں مقہوراورمجبور انسانوں کی آواز ہے۔اور ایک اخبار نہیں ٗایک نظرئیے اورتحریک کا نام ہے جو قیام پاکستان میں تو سرگرم رہا ہی ٗ استحکام پاکستان میں بھی اس کا کردار کلیدی رہا ہے۔ غربت ٗغلامی اور ناانصافی کے خلاف نوائے وقت اور اس کے مدیرمحترم نے کبھی کسی قدم پر سودے بازی نہیں کی ٗنہ کبھی جھکے ٗنہ کبھی بکے بلکہ اپنے مفادات ٗقومی مفادات پرقربان کرکے حب الوطنی کی اعلیٰ مثال قائم کی جس کی کوئی دوسری مثال ملنا کم ازکم ہمارے معاشرے میں ملنامحال ہے۔
    اپنے نظریات پر اٹل رہنے والے اوراس کی پاداش میں جان کی بازی تک لگادینے والے ایک عالمی دانشور لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا:
     "یہ ضروری ہے کہ زندہ رہنے کے لئیے انسان کے پاس کوئی بڑا مقصد ہو ٗ کوئی بڑا نظریہ ہو ٗورنہ انسان کہیں نہ کہیں ٗکبھی نہ کبھی جھک جاتا ہے ٗ تھک جاتا ہے یا بک جاتا ہے۔"ڈاکٹرمجیدنظامی پرلیون ٹراٹسکی کا یہ قول صادق آتا ہے۔پاکستان میں وہ ایک بڑامقصد لے کرآگے بڑھے ٗایک عظیم نظرئیے کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کردیا۔زندگی کے کسی موڑ پر وہ  نہ کبھی کسی کے آگے جھکے ٗنہ کبھی اس کٹھن راہ میں تھکے اورنہ ہی کسی قدم پربکے۔وہ ایک شان بے نیازی سے تمام عمر اپنے عقیدے کی فتح کے لئے سرگرم عمل رہے ٗ اوراپنے اصولوں پرکسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا حتی کہ اس راہ میں اپنی جان ہاردی۔

مزیدخبریں