ایران ایٹمی پروگرام محدود‘ سینٹری فیوجز کم کرنے پر آمادہ‘ امریکہ اور پانچ بڑی طاقتوں کے معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق

لوزین+ واشنگٹن (نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) سوئٹزرلینڈ میں طویل مذاکرات کے بعد ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس کے تحت ایران یورینیم کی افزودگی کم کر دے گا اور اس کا ایٹمی پروگرام محدود ہو جائے گا۔ ایران، امریکہ اور جرمنی نے کہا ہے کہ آٹھ روز کی گفت و شنید کے بعد اتفاقِ رائے ہو گیا۔ جامع جوہری معاہدہ 30 جون تک تشکیل دیا جائے گا۔ بدھ کو سارا دن امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی کے ساتھ مذاکرات جاری رہے تھے۔ ایران اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن مغربی ممالک نے ایران کی جانب سے جوہری بم بنانے کے خدشے کے پیشِ نظر اس پر سنگین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایران مذاکرات کے ذریعے ان پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایران نے سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں پی پلس فائیو سے مذاکرات کئے۔ یہ ممالک کا ایک گروہ ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور جرمنی شامل ہیں۔ یہ مذاکرات 31 مارچ کو ختم ہونا چاہئیں تھے لیکن بعد میں ان کی حتمی مہلت میں توسیع کرنا پڑی۔ ٹوئٹر پر پیغام میں ایران کے وزیرِ خارجہ جاوید ظریف نے کہا ہے حل تلاش کر لیا گیا ہے، فوری طور پر مسودے پر کام شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جرمنی کی وزارتِ خارجہ نے ٹوئٹر پر کہا کہ معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق ہو گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ٹویٹ میں کہا کہ یہ بڑا دن ہے، ایران سے تنازعہ ختم ہو جائیگا، حتمی معاہدے کے لیے کام شروع ہو گیا ہے تاہم اسرائیل کے وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو نے معاہدہ مسترد کرتے ہوئے ٹوئٹر ہی پر کہا کہ کوئی بھی معاہدہ ہو، اس میں ایران کے جوہری پروگرام کی صلاحیتوں کو خاصی حد تک رول بیک کرنا ہو گا، اس کی دہشت گردی اور جارحیت کو ختم کرنا لازمی ہو گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ایران کے خلاف فوجی ایکشن سمیت تمام آپشنز کھلے ہیں۔ معاہدے کے مطابق ایران سنٹری فیوجز کی تعداد 19 ہزار سے کم کر کے 6 ہزار کریگا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سمجھوتے کی دستاویز 30 جون تک تیار کر لی جائے گی۔ حتمی معاہدے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین ایران پر پابندیاں ختم کر دینگے۔ ایران افزودہ کی گئی یورینیم کی طاقت کم کرے گا۔ جوہری معاہدے کو اقوام متحدہ کی ضمانت حاصل ہو گی۔ یورپی یونین کے مطابق آئی اے ای اے کی تصدیق پر ایران پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ جوہری معاہدہ تمام فریقین کی محنت سے ممکن ہوا۔ اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے کہا ایران کے جوہری تنازعہ کا حل تلاش کرلیا ہے۔ یورپی یونین کے سفارتکار نے ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ اچھی خبر ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے تصدیق کی ہے کہ ایٹمی معاہدے کے نکات پر اتفاق ہوگیا ہے۔30 جون تک ایٹمی معاہدہ ہو جائے گا۔ دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ اچھا ہے، اس سے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کو روکا جا سکے گا، ایران پلوٹونیم بم نہیں بنا سکے گا۔ اوباما نے کہا کہ ایران کا فریم ورک معاہدہ تاریخی نوعیت کا اور اچھا معاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاہدے کے بارے میں اسرائیلی وزیراعظم سے بات کرینگے۔ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر یورپی یونین اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان سمجھوتے کا خاکہ طے پایا ہے جس کا اعلان یورپی یونین کی ایلچی برائے مور خارجہ فریڈریکا مغیرنی نے باضابطہ طور پر کیا۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزیان سے براہ راست اعلان میں فریڈریکا نے کہا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ ہم ایک سیاسی سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں۔ یوں ہم 30 جون تک حتمی سمجھوتہ طے کر لینگے۔ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ان کے ملک کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ابھی ایران اور عالمی طاقتوں کے سامنے باقاعدہ سمجھوتہ موجود نہیں۔ سمجھوتے کی تفصیل کا انتظار ہے۔ یورپی یونین نے معاہدے کو سراہا ہے۔ روس نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ کیلئے بہت بہتر ہو گا۔ برطانیہ نے بھی معاہدہ کو سراہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ جوہری ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے سوئٹزرلینڈ میں یورپی یونین کی اعلیٰ نمائندہ فیڈریکا موگیریٹی کے ساتھ بیان دیتے ہوئے کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں طویل مذارات کے بعد ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اتفاق رائے کے اعلان کے تھوڑی دیر بعد امریکی صدر براک اوباما نے اپنے خطاب میں اس ”تاریخی معاہدے“ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس کے عملدرآمد پر کڑی نظر رکھی جائے گی، اگر ایران نے خلاف ورزی کی تو دنیا جان جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ اعتماد پر نہیں بلکہ ”غیرمعمولی تصدیق“ کے عمل پر قائم کیا گیا ہے۔ اس فریم ورک پر مہینوں کے سخت اور اصولی سفارت کاری کے بعد اتفاق ہوا ہے، یہ ایک عمدہ معاہدہ ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ جاوید ظریف کا کہنا تھا کہ معاہدے کی شرائط کی رو سے ایران اپنے سینٹری فیوجز میں دو تہائی کمی لائے گا اور وہ ہتھیار بنانے کے قابل پلوٹونیم افزودہ نہیں کر سکے گا جبکہ اس کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیاں مرحلہ وار ختم کی جائیں گی۔ ایران اس بات سے انکار کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن مغربی ممالک نے ایران کی جانب سے جوہری بم بنانے کے خدشے کے پیش نظر اس پر سنگین پابندیاں عائد کیں۔ ایران مذاکرات کے ذریعے ان پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے مطابق ایران نے یورینیم افزودہ کرنے والے سنٹری فیوجز کی تعداد 19 ہزار سے کم کر کے 6104 کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، ان میں سے 5060 آپریشنل ہونگے۔ ایران کی یورینیم کی افزودگی کی شرح کم ہو جائیگی۔ ان اقدامات سے ایران کا ایٹمی پروگرام محدود ہو جائے گا۔ صدر اوباما نے کہا کہ تاریخی معاہدے کے بعد ایران جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہے گا۔ ایران کئی دہائیوں سے یورینیم افزودہ کر رہا تھا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کا معائنہ بڑھایا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدے کا فریم ورک طے کر لیا۔ معاہدے کے مطابق ایران کو ایٹمی پروگرام محدود کرنا ہو گا۔ عبوری سمجھوتے سے ہمارے مقاصد پورے ہو گئے۔ ایران کو یورینیم افزودگی کی شرح مقررہ حد تک لانا ہو گی۔ ایران نے دھوکہ دیا تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا۔ معاہدے کا مسودہ جون تک تیار ہو گا۔ ایران سے معاہدہ طویل مدت کا ہو گا۔ کوئی مشتبہ چیز دیکھی تو معائنہ کیا جائے گا۔ ایران دس سال تک کوئی ایٹمی ری ایکٹر تعمیر نہیں کرے گا۔ معاہدے کے بدلے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔ ایران کو ایٹمی پروگرام سے روکنے کے تین راستے تھے، ایک راستہ یہ بھی تھا کہ ایران کے ایٹمی پلانٹ پر بمباری کی جاتی۔ ایران پر غیرایٹمی پابندیاں برقرار رہیں گی، امریکی شہریوں کا تحفظ اولین ذمہ داری ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ اسرائیل کیلئے بہترین راستہ ہے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے کہا ہے کہ اس فریم ورک کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ایران/ معاہدہ




ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...