مریم نواز نے تصدیق کی کہ میرے والد وزیراعظم نواز شریف کے گردے میں پتھری ہے۔ ایک سچا واقعہ مریم نواز کی خدمت میں لطیفے کے طور پر عرض ہے کہ عالم اسلام کے بہت بڑے عالم دین اور سیاسی رہنما پہلے امیر جماعت اسلامی سید مولانا مودودی کو بھی گردوں میں پتھری تھی۔ انہیں ایک بار ان کے لبرل دوست نامور شاعر جوش ملیح آبادی ملے اور مذاق مذاق میں کہنے لگے۔ خدا تمہیں اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔
مرشد و محبوب مرحوم مجید نظامی کا 89 واں یوم ولادت مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے زیراہتمام منایا جائے گا۔ کیک بھی کاٹا جائے گا۔ مرکزی اجلاس کے لیے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے شاہد رشید 3۔ اپریل کو دس بجے ایک شاندار تقریب منعقد کر رہے ہیں۔ نظامی صاحب معمار نوائے وقت ہیں۔ یہ بات نوائے وقت کی پیشانی پر لکھی ہوئی ہے جہاں ایڈیٹر کے طور پر رمیزہ مجید نظامی کا نام ہوتا ۔
ڈاکٹر عاصف کرمانی اور غلام حسین شاہد نے مجید صاحب کے لیے خوب اہتمام کیا ہے مگر اصل بڑی تقریب صوبائی وزیر برادرم خواجہ عمران نذیر کی ذاتی دلچسپی سے منعقد ہو گی۔ شہر میں کئی تقاریب محبان مجید نظامی کر رہے ہیں۔ نظامی صاحب بلاشبہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے صحافی تھے۔ وہ آبروئے صحافت تھے۔ سب اخبارات کے لوگ دل و جان سے ان کی عزت کرتے تھے اور انہیں اپنا لیڈر مانتے تھے۔ سینئر دوست اور صحافی سینئر ایڈیٹوریل ایڈیٹر محمد سعید آسی نے بتایا ہے کہ 3 اپریل کو نوائے وقت کی ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے اسے خوشخبری کہا ہے مگر اصل خوشخبری ان کے لیے یہ ہے کہ آرمی چیف عمران خان کی جمہوریت کے ساتھ ان کے بقول کھڑے ہیں کیونکہ وہ نواز شریف کی حکومت کو جمہوری حکومت مانتے ہی نہیں ہیں۔ خوشخبری اصل میں یہ ہے کہ آرمی چیف بھارت کی شرپسندی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کا دشمن کسے سمجھتے ہیں؟
احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں۔ یہاں سابق وزیر کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔ صرف اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے جو ناپسندہ ہو اور کوئی انتقامی کارروائی مقصود ہو۔ وارنٹ تو فاروق ستار، یوسف رضا گیلانی حتیٰ کہ مریم نواز کے خلاف جاری ہوئے مگر کچھ نہیں ہوا۔ عدالت برہم صرف ہوتی ہے۔ وہ تقریباً ہر بار برہم ہوتی ہے۔ عدالت سے ادب کے ساتھ گذارش ہے کہ وہ کبھی مطلوب لوگوں کو درہم برہم کر دے۔
نامور شاعرہ کراچی کی فاطمہ حسن نے بتایا ہے کہ اجمل نیازی کے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کی سالگرہ 9 اپریل کو ہے جبکہ کچھ ٹی وی چینلز 19 اپریل کو پروگرام کرتے ہیں۔ خواتین و حضرات سے گذارش ہے کہ وہ اصل تاریخ کے لیے نوٹ کر لیں۔ اس دن بیگم منیر نیازی باجی ناہید نیازی پروقار گھریلو تقریب کا انعقاد کریں گے۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب رئیسانی طویل علالت کے بعد وطن واپس پہنچے تو وہ ابھی بھی واقعی علیل لگ رہے تھے مگر افسردہ چہرے کے ساتھ بھی شگفتہ باتیں کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ پاکستان میں علاج کراتے تو بہت جلد ٹھیک ہو جاتے مگر ہمارے حکمرانوں اور امیر کبیر سیاستدانوں کو بیرون ملک علاج کرانے کی عادت ہے۔ ان پیسوں سے وہ وطن میں ایسا ہسپتال بنا سکتے ہیں جہاں وہ خود بھی اپنا علاج کرا سکیں گے۔ یہاں پرانے ہسپتالوں سے لوگ اپنا علاج کرا کے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ہمارے چند لوگوں کو نجانے کیا بیماری ہے کہ وہ اپنی بیماری کے بہانے سے یورپ وغیرہ کی سیر کر آتے ہیں مگر نواب رئیسانی تو واقعی بیمار شمار لگ رہے تھے۔
وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کی تقریر میں نے کئی ٹی وی چینل پر سنی ہے۔ وہ بہت سلیقے اعتماد اور غیرسیاسی انداز میں سیاسی گفتگو کرتی ہیں۔ میں نے کم کم وزیروں کو اس طرح اچھے انداز میں بات کرتے سنا ہے۔ ان کا ایک جملہ مجھے یاد رہا ہے۔ تخلیقی کیفیت میں بات کی گئی ہے۔ ’’نواز شریف بچوں کی آنکھوں سے پاکستان کا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔‘‘ یہ بہت بڑا خراج تحسین ہے جو نواز شریف کو ملا ہے ورنہ خوشامدی لوگ بڑ بڑ کرتے ہیں۔ کیا حکومت کو طلال چودھری اور دانیال عزیز کے علاوہ کوئی اچھا آدمی نہیں ملتا۔ ابھی شاید مریم نواز نے انہیں بات کرنے سے روک رکھا ہے۔ مریم نواز شریف بچوں کی تعلیم و تربیت کے پروگراموں میں نواز شریف کو لے جاتی ہیں۔ میں مریم نواز کے لیے پسندیدگی رکھتا ہوں مگر ابھی تک ایسے جملے کا ان کی طرف منتظر ہوں جو دل میں اتر جائے۔
مولانا فضل الرحمن کے لیے عوام الناس ایک خاص تاثر رکھتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہے مگر ان کی ایک تقریر میں ایک جملہ مجھے پسند آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچے بھی ہماری خارجہ پالیسی کو سمجھتے ہیں صرف حکمران نہیں سمجھتے۔ اسی لیے تو ہمارا وزیر خارجہ نہیں ہے۔ ایک بچے سے بھی پوچھیں تو وہ برملا اور برجستہ کہے گا ’’امریکہ ہمارا آقا ہے اور چین ہمارا دوست ہے۔‘‘
انڈیا سے نامور ادبی شخصیت اختر شاہجہان پوری نے مجھے دو کتابیں ارسال کی ہیں۔ اس کے لیے میں خاص طور پر ان کا شکر گزار ہوں۔ ایک کتاب اختر صاحب کے مضامین پر مشتمل ہے ’’تفہیم شعر‘‘ کتاب میں 37 مختلف بہترین مضامین شامل ہیں۔ دوسری کتاب مشاہیر کے خطوط پر مشتمل ہے جو اختر شاہجہان پوری کو لکھے گئے ہیں۔
’’بیاض‘‘ پاکستان میں سب سے زیادہ شائع ہونے والا ادبی جریدہ ہے۔ اس کے ایڈیٹر عمران منظور ہیں اور انہیں اپنے بھائی نعمان منظور کی مکمل اور مخلصانہ معاونت حاصل ہے۔ اس سلسلے کو ان کے رشتے میں بھائی عمران منظور نے بہت محبت اور محنت سے جاری رکھا ہے۔ اس کے لیے ادب کے قارئین کا شکریہ بہر طور پر واجب ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے تعاون سے بہت شاندار اہم ادبی تقاریب بھی کرتے ہیں اور ادب کی ترویج میں تاریخی کردار ادا کر رہے ہیں۔ نجیب احمد اعجاز رضوی اور اسد احسان کی محبت بھی ان کو حاصل ہے۔ خالد احمد نے تحریر کے ساتھ تصویر کا اہتمام کیا تھا جو ایک پسندیدہ اور مقبول جدت تھی جو اب تک جاری ہے جس نے اس بہترین رسالے کو ادبی لوگوں کے دل کے قریب کر دیا ہے۔ تازہ ترین شمارہ بانو قدسیہ کی یاد میں ہے۔ یہ بلاشبہ بہت یادگار اشاعت ہے۔ بانو آپا کے لیے میرا نذرانہ عقیدت بھی شامل ہے۔ دونوں بھائیوں نے بانو قدسیہ کے لیے ایک ریفرنس بھی کیا تھا۔ جو ادب کے ساتھ ان کی وابستگی اور وارفتگی کی دلیل ہے۔ اب صرف ایک ہی ادبی رسالہ مذکور ہے اور و ہ بیاض ہے۔ کسی شاعر سے پوچھا جائے کہ اپنی شعری بیاض لائے ہو تو وہ رسالہ بیاض بغل سے نکال کر دکھا دیتا ہے۔