بری افواج کے سپہ سالار کا منصب سنبھالے جنرل باجوہ کو تین سے زیادہ مہینے گزر چکے ہیں۔اس دورانیے کے پس منظر میں DGISPRکی جانب سے تحریک انصاف کے قائد کی سپہ سالار کے ساتھ ہوئی ملاقات کے بارے میں جمعے کی رات کو جاری کئے گئے ٹویٹس کا متن ہرگز منطقی نہیں تھا۔ تاثر اس سے بلکہ یہ پھیلاکہ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“۔
کسی اور کو دوش کیوں دوں۔ میں خود اس متن کا اپنے ٹویٹ اکاﺅنٹ کے ذریعے مذاق اُڑانے پر مجبور ہوگیا تھا۔کالم لکھنے کی وجہ سے صبح جلد اُٹھنے کی عادت اپنائی ہے۔اس عادت پر قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ رات11بجے کے بعد فوراً سونے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ بے خوابی کا مگر جوانی سے روگ لگ چکا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ فشارِ خون کا معاملہ بھی چل نکلا۔ ان دونوں سے بچاﺅ کے لئے رات کے کھانے سے چند گھنٹے بعد دوگولیاں نگلنا ضروری ہے۔ نیند اس کے باوجود اکثر ”رات بھر نہیں آتی“۔
جمعے کی رات بھی ایسی ہی ایک رات تھی۔ کروٹیں لینے سے اُکتاکر اپنا فون اُٹھا لیا۔ ٹویٹر اکاﺅنٹ کھولا تو اس کے ذریعے عمران خان صاحب کی جنرل باجوہ کے ساتھ ملاقات کی اطلاع ملی۔ ہمیں بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے قائد، سپہ سالار کو ان کی نومبر 2016ءکے اواخر میں ہوئی ترقی اور نیا منصب سنبھالنے کی مبارک دینے کی خاطر ملے تھے۔ ملاقات کی بیان کردہ وجہ پڑھ کر میرا پنجابی والا ”ہاسا“ چھوٹ گیا۔ فوراً ایک ٹویٹ کے ذریعے اس امر کے بارے میں اپنی حیرت کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگیاکہ عمران خان صاحب کو یہ اطلاع ملنے میں تین ماہ لگے کہ جنرل باجوہ کو ترقی دے کر ا فواجِ پاکستان کا سپہ سالار بنادیا گیا ہے۔
انٹرنیٹ پر چھائے عمران خان کے حامیوں اور پرستاروں کو میرے پھکڑپن نے چراغ پاکردیا۔ ان کی گالیوں سے بے مزہ نہ ہونے کی بھی لیکن اب عادت ہو چکی ہے۔ مزید پھکڑپن میں اُلجھ گیا۔ وقت ضائع کیا اور بالآخر تھک کرسوگیا۔
مزید لکھنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ میری ایمان دارانہ رائے میں ہماری سیاسی قیادت کو خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو یا حزب مخالف سے، عسکری قیادت کے ساتھ غیررسمی ملاقاتیں کرتے رہنا چاہیے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے پاکستان اس وقت ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ دور سے گزر رہا ہے۔ اس حوالے سے چند ٹھوس معلومات صرف عسکری قیادت کو اپنے انتہائی منظم اداروں کی بدولت میسر ہیں۔ ان میں سے چند معلومات کا سیاسی قیادت کے علم میں لانا انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر عمران خان جیسے رہنماﺅں کے لئے جو غلط یا صحیح وجوہات کی بناءپر حکومت وقت کے خلاف تحریکی ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ اس سے جلد از جلد نجات کو بے چین ہیں۔
معمول کے جمہوری نظام کے تحت کام کرنے والے ممالک میں پارلیمانی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ان کمیٹیوں میں حزب مخالف کی مناسب نمائندگی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کم از کم ہر تین ماہ بعد دفاع اور خارجہ امور کے بارے میں موجود سینٹ اور قومی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس ہو۔ اس اجلاس کے روبرو، جس کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کا عہد کیا جائے، عسکری اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے نمائندے اپنی جمع کردہ معلومات اور ان کا تجزیہ پیش کریں۔ عوامی نمائندوں کی جانب سے ان کے بارے میں موجود خدشات اور تحفظات پر مبنی سوالات کا جواب دیا جائے۔
ہم مگر اپنی ترکیب میں خاص ہیں۔ معمول سے ذراہٹ کر زندگی میں جوش وجذبہ بھرنے کے عادی۔ اپنی اناﺅں کے غلام اور اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم۔ ایسے حالات میں معمول کے تحت ہوئی ملاقاتوں کے بارے میں بھی اپنی پسند کے نتائج اخذ کرنے کے لئے قیاس آرائیاں لازمی ہوجاتی ہیں۔عسکری اور سیاسی قیادت کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیاس آرائی کے غباروں کے لئے ہوا فراہم نہ کریں۔ جمعہ کی رات جاری کی گئی ٹویٹس نے لیکن یہ فریضہ ادا نہیں کیا۔
ٹی وی سکرینوں پرعقلِ کل نظر آتے اینکر خواتین و حضرات نے عمران خان کی سپہ سالار سے ہوئی ملاقات کو بنیادی طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تناظر میں رکھ کر بیان کیا جو اس نے پانامہ والے قضیے کے بارے میں محفوظ کر رکھا ہے۔ عقلِ کل بنے افراد کو مکمل یقین ہے کہ پانامہ والے قصے میں نواز شریف کی بچت ممکن نظر نہیں آ رہی۔ انہیں اگر اپنے عہدے پربرقرار رہنے کے لئے ”نااہل“ نہ بھی ٹھہرایا گیا تو جو فیصلہ آنا ہے اس میں چند ایسی ”تجاویز“ شامل ہوں گی جو تمام حکومت مخالف جماعتوں کو یکجا ہوکر نواز شریف کا استعفیٰ لینے کی مہم چلانے پر مجبور کر دیں گی۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ طے کرنے پر تقریباً مجبور کردیا گیا ہے کہ جنرل باجوہ، عمران خان کو یہ سمجھانے کے لئے ملے کہ پانامہ کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش دلی سے قبول کیا جائے اور اس کے آجانے کے بعد ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنے سے اجتناب برتا جائے۔
”اندر کی خبر“ رکھنے والے میرے کئی دوستوں کا مگر یہ دعویٰ بھی ہے کہ جنرل صاحب نے عمران خان صاحب کو صرف یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی جماعت کو پاکستان کے سعودی عرب کی ہمراہی میں ایک ”اسلامی NATO“ بنانے والے فیصلے کے خلاف احتجاجی ماحول بنانے سے روکیں۔
عمران خان اس ملاقات پر تبصرہ آرائی سے مگر گریز کر رہے ہیں۔ ان جیسے ”منہ پھٹ“ اور ہر صورت اپنی بات کرنے والے رہنما کی اس ضمن میں خاموشی بہت معنی خیز ہے۔ اگرچہ ”خوش خبری“ قوم کو انہوں نے یہ بھی دی ہے کہ جنرل باجوہ پاکستان میں جمہوری نظام کو برقرار کھنے کے حامی ہیں۔
جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کی نوید سنانے کے باوجود عمران خان اپنے رویے سے افراتفری پھیلاتی قیاس آرائیوں کو روک نہیں پائے ہیں۔عمران خان کی جنرل باجوہ سے ملاقات کے دوسرے روز نواز شریف صاحب اپنا طبی معائنہ کروانے ایک ہسپتال گئے۔ یہ معائنہ پہلے سے طے شدہ اور معمول کے مطابق بھی ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم کے ہسپتال سے آجانے کے بعد مگر سوشل میڈیا کے ذریعے افواہیں یہ پھیلیں کہ نواز شریف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے اپنے علاج کے ”بہانے“ بیرونِ ملک چلے جائیں گے۔اس صورت میں فیصلہ ان کے خلاف آیا تو انہیں اپنا استعفیٰ پیش کرنے کیلئے ایک ”مناسب اور باعزت جواز“ مل جائے گا۔ان کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد ممکنہ ”آپا دھاپی“ کو قابو میں رکھنے کا ماحول بھی باآسانی میسر ہوجائے گا۔
بہت ہی ”اندر“ کی خبررکھنے والے تو یہ دعویٰ بھی کرتے پائے گئے ہیں کہ نواز شریف کی ”باقاعدہ“ اور ”مناسب“رخصت کے بعد آئندہ انتخابات کے انعقاد تک شاید کوئی ”قومی حکومت“ بنائی جاسکتی ہے۔یہ وضاحت اگرچہ نہیں ہوئی کہ مجوزہ ”قومی حکومت“موجودہ قومی اسمبلی اور سینٹ کو برقرار رکھے گی یا نہیں۔ قومی اسمبلی سے نجات کا طریقہ تو آئین میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ سینٹ مگر ایک ”مستقل ادارہ“ شمار ہوتا ہے۔اس سے نجات مارشل لاءکے نفاذ کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ قانونی حوالوں سے تقریباً یہی صورتحال صوبائی اسمبلیوں کے بارے میں بھی ہے۔ ”قومی اسمبلی“کو لہٰذا موجودہ پارلیمانی اداروں کے ساتھ ہی کام کرنا ہوگا۔ ”اندر کی بات“ سے مالامال اینکر خواتین وحضرات اور ان کی رہنمائی میں سوشل میڈیا پر مستقبل کے زائچے بنانے والوں کو مگر ان بنیادی حقائق پر غور کی فرصت ہی نہیں۔
میری شدید خواہش تھی کہ عمران خان کی جمعہ کے روز جنرل باجوہ سے ہوئی ملاقات ہمارے ماحول پر چھائی ہیجانی کیفیات میں کچھ کمی لاتی۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا اور وجہ اس کی صرف اور صرف ہنر ابلاغ کی مبادیات سے روگردانی ہے۔کاش عمران خان جنرل باجوہ کو مبارک دینے کے بجائے کسی اور وجہ سے ملے ہوتے۔
عمران جنرل باجوہ ملاقات۔ دعوے، چہ میگوئیاں، قیاس آرائیاں
Apr 03, 2017