ڈاکٹر مجید نظامی۔ عہد ساز شخصیت

مجید نظامی پاکستانی قوم کا جگمگاتا ستارہ ہیں اُن پر نہ صرف اہل صحافت بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو ناز ہے۔ نظامی صاحب نے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبالؒ کے حیات و افکار کی روشنی میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور تاحیات اس پر کاربند رہے۔ آج جبکہ وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن حکمرانوں کے سامنے اُن کا کلمۂ حق کہنا صحافتی مجلسوں میں آج بھی موضوع گفتگو رہتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں علامہ اقبالؒ کے مرد مومن تھے اور کردار و گفتار سے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔
اپنی صحافتی زندگی کے دوران جناب مجید نظامی نے بہت اتار چڑھائو دیکھے۔ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم کے ہمراہ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے نوائے وقت کے لئے کام شروع کیا۔ انہوں نے اخبار کے بنڈل بنانے سے اخبار کی ترسیل تک کا کام اپنے ہاتھوں کیا، انہوں نے ہیلی کالج آف کامرس میں داخلہ لیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے جہاں سے انہوں نے ایم اے سیاسیات کیا اور پھر بیرسٹری کے لئے انگلستان چلے گئے۔ جب تک لاہور میں رہے سرراہے لکھتے رہے لندن سے انہوں نے سیاسی طنز و مزاح پرمبنی کالم ’’مکتوب لندن‘‘ لکھنا شروع کیا۔ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم کی بیماری کی اطلاع ملی تو واپس پاکستان آئے اور بھائی کی وفات کے بعد انہوں نے نوائے قت کے ایڈیٹر کے فرائض سنبھالے۔ اُن کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں بہت سی مشکلات کا سامنا اور متعدد نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ وہ حق گوئی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، حق گوئی کی پاداش میں انہیں بھاری مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا مگر اُن کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی اور نہ ہی کبھی کوئی طمع و لالچ انہیں راہ حق سے ہٹا یا حق گوئی سے باز رکھ سکا۔ نوائے وقت کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے ان کی سول و فوجی حکمرانوں سے ملاقات رہی ۔ ان کی ہر ملاقات اپنے اندر اُن کی جرأت و بیباکی کی نئی کہانی لئے ہوئے ہے۔ آج بھی جہاں مدیران کرام کی محفل جمتی ہے نظامی صاحب کے حکمرانوں سے ملاقاتوں میں اُن کی بیباکی و جرأت کے واقعات کا بالخصوص ذکر ہوتا ہے۔
نظامی صاحب کی ذات کی ایک اور خصوصیت ان کا وطن عزیز کے بنیادی مفادات کی نگہبانی کرنا تھا۔ اس سلسلے میں وہ اپنے کسی پیارے کی بھی کوئی کوتاہی برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوتے تھے، مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے وہ بہت جذباتی تھے اور کشمیریوں کی جنگ انہوں نے جس جانفشانی کے ساتھ لڑی اس سے وہ کشمیریوں کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں، بھارت کو وہ پاکستان کا ازلی دشمن سمجھتے تھے۔ بھارت کی آبی قزاقی پر اُن کا موقف شمشیر برہنہ کی طرح تھا۔ وہ بھارت ٹینک پر سوار ہوکر جانے پر یقین رکھتے تھے۔
بھارت کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور پاکستان کے ساتھ زور زبردستی کے واقعات پر تڑپ اٹھتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایٹم بم ہم نے کھلونے کی حیثیت سے نہیں رکھنا بلکہ وہ یہاں تک کہتے تھے کہ مجھے ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر بھارت پر داغ دو تاکہ بھارت کا حشر نشر کردیا جائے۔ یہ حقیقت ہر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ موجودہ زمانے میں وہ نظریہ پاکستان کے سب سے بڑے مبلغ تھے اور نظریہ پاکستان کو پاکستان کی اساس قرار دیتے تھے۔
پاکستان سے عشق نے انہیں عمر کے آخری حصہ تک نوجوانوں جیسے جوش و جذبے سے مالامال رکھا۔ مسلم لیگ سے اُن کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی اور شریف فیملی کے سربراہ میاں محمد شریف مرحوم سے اُن کے بھائیوں جیسے تعلقات تھے لیکن وزیراعظم نوازشریف کی بھارت کے معاملے میں پالیسی میں تبدیلی کے سخت ناقد تھے۔ نظامی صاحب نے جناب نواز شریف کی موجودگی میں کئی مرتبہ اس بات پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلے بھارت کے ساتھ تجارت کیوں کی جارہی ہے۔
جناب مجید نظامی کو اپنی زندگی میں کشمیر کی آزادی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ جہاں تک میاں نوازشریف کا تعلق ہے اُن سے بے پناہ محبت رکھنے کے باوجود وہ اُن کے مسلم لیگی دھڑوں کے ادغام کی راہ میں حائل ہونے پر خوش نہ تھے اور کہتے تھے کہ مسلم لیگ ایک ہو جائے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف ہی کو پہنچے گا مگر یہ شخص مسلم لیگ کو ایک کئے جانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔
آج نظامی صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن مسلم لیگ کو ایک کرنے کی بات آج بھی کی جا رہی ہے ا ور ایسا کرنے والے اسے نظامی صاحب کی وصیت بھی قرار دیتے ہیں تاہم اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آج جن مسلم لیگی دھڑوں کو ایک کئے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں اُن میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ بھی شامل ہے اور مزید ظلم یہ کہ جنرل پرویز مشرف متحدہ مسلم لیگ کا سربراہ بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ نظامی صاحب کے دوست سید غوث علی شاہ اگرچہ مسلم لیگی دھڑوں کے ادغام کے حامی ہیں لیکن وہ بھی ہم سے کہہ چکے ہیں کہ بھلا پرویز مشرف کی قیادت میں ایک مسلم لیگ کس طرح قبول کی جا سکتی ہے۔ دروغ بر گردن راوی چودھری شجاعت حسین بھی پرویز مشرف کی سربراہی میں قائم ہونے والی متحدہ مسلم لیگ میں شامل ہونے پر تیار نہیں ہیں۔
نظامی صاحب کی زندگی میں مسلم لیگی دھڑوں کو ایک کرنے کے لئے سلیم سیف اللہ نے سنجیدہ کوششیں کی تھیں جن کے نظامی صاحب بہت مداح تھے۔ ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں چودھری شجاعت حسین نے بھی جناب مجید نظامی کو مسلم لیگ ایک کرنے کا اختیار دے دیا تھا جبکہ پیر صاحب پگارا سید علی مردان شاہ کے بھی نظامی صاحب بہت مداح تھے کہ انہوں نے بھی نظامی صاحب کو پیغام بھجوایا تھا کہ وہ ان کی ایک کرائی گئی مسلم لیگ میں غیر مشروط طور پر شامل ہونے کو تیار ہیں۔ مگر افسوس نظامی صاحب کی زندگی میں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
آج جبکہ ہم اُن کی 90 واں یوم پیدائش منا رہے ہیں ’’نوائے وقت‘‘ اُن کی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی کی ادارت میں پھل پھول رہا ہے۔ اُن کا لگایا ہوا ایک اور پودا ’’وقت نیوز‘‘ بھی ترقی کرر ہا ہے۔ سو صحافتی دنیا میں آج بھی مجید نظامی صاحب کے نام کا بول بالا ہے۔ ہماری یہ دلی تمنا ہے کہ اُن کے دوست ا ور مسلم لیگ والے اُن کی آخری خواہش ایک اور مضبوط مسلم لیگ کو بھی حقیقت کا روپ دے ڈالیں تو یقینی طور پر ایسی مسلم لیگ وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی اور ناقابل تسخیر پاکستان کی ضامن ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...