قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستانی صحافت کو بھی اپنے خدوخال اور اسلوب کی ترتیب و تدوین کا مسئلہ درپیش تھا اس مرحلہ پر ’’نوائے وقت‘‘ نے تاریخی کردار ادا کیا کیونکہ ’’پاکستان‘‘ اور ’’نوائے وقت‘‘ ہم عصر، ہم عمر اورہم خیال بھی ہیں۔ پاکستان کی تخلیق نظریہ پاکستان پر ہوئی اور ’’نوائے وقت‘‘ نے اس نظریہ کو پاکستان کی امانت کے طور پر پہلے دن سے ہی اپنا مرکزی خیال رکھا اور جس کی پاسداری کا وہ ابھی تک امین ہے اور رہے گا کیونکہ یہی نظریہ وجہ تخلیق پاکستان اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہے گو کہ اس نظریہ کے تحفظ کے لئے ’’نوائے وقت‘‘ کو گاہے بگاہے مشکل اور کڑے حالات سے بھی گزرنا پڑا اور اس کے لئے مالی مشکلات بھی پیدا کی گئیں مگر اس نے ان سب کا پامردی سے مقابلہ کیا اور اپنے نظرئیے پرقائم رہا۔ ’’نوائے وقت‘‘ کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور اس کے بانی حمید نظامی کا تھا، ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ زبان اور الفاظ کے استعمال کا بڑا خیال رکھتے تھے کیونکہ ’’نوائے وقت‘‘ کے قاری شائستگی اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ان کے دور کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ تصاویر کی اشاعت سے اجتناب کرتے تھے اور تحریر کو فوقیت دیتے تھے ان کے دور کے ایک سب ایڈیٹر انیس قمر مرحوم جو بعد میں بہاولپور قیام پذیر ہوئے تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک خاتون کو قتل کیا گیا تو انہوں نے اس کی خبر بنائی جس کا آخری حصہ یہ تھا کہ ’’مقتولہ چھ ماہ کی حاملہ تھیں ‘‘ جب حمید نظامی صاحب نے یہ خبر دیکھی تو اسکی ترمیم کی جس کے بعد خبر کا آخری حصہ یوں تھا ’’مقتولہ تین ماہ بعد بچے کی ماں بننے والی تھی‘‘ اور وہ نیوز کو بھی ویوز کے انداز میں ترتیب دینے کو ترجیح دیتے تھے۔
دوسرا دور جسے ’’نوائے وقت‘‘ کا سنہری دور بھی کہا جا سکتا ہے اور وہ دور اخبار کے معمار مجید نظامی مرحوم کا تھا جس کے دوران انہوں نے دانشوروں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ صحافت کا دوسرا نام ’’نوائے وقت‘‘ ہے۔ مجید نظامی نے اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ جامعات سے تازہ فارغ تحصیل قابل نوجوانوں کے علاوہ ایسی نابغہ روزگار شخصیات کو بھی ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارہ تحریر میں شامل کیا جن کا اپنا ایک الگ ، جداگانہ انداز تحریر اور اسلوب تھا یہی وہ دور ہے جس میں نہ صرف ’’نوائے وقت‘‘ کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ اس کی سرکولیشن بھی کافی زیادہ ہوگئی۔ مجید نظامی جنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں طویل ترین عرصہ تک کسی قومی روزنامہ کے ایڈیٹر رہے۔آپ نے دلیری اور بے باکی سے جمہوریت کے بقائ، پاکستان کے استحکام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لئے جنگ لڑی اور وہ ہر آمر کے سامنے بے خوف ہوکر عوامی جذبات اور جمہوری اقدار کی ترجمانی کرتے رہے۔ ایک موقع پر اس وقت کے آمر پرویز مشرف نے قومی اخبارت کے مدیروں سے ایک ملاقات کی جس کے دوران کچھ مدیر پرویز مشرف کے اقدامات کی ستائش کرتے رہے اور ہاں میں ہاں ملاتے رہے جبکہ مجید نظامی خاموش بیٹھے تھے۔ پرویز مشرف نے ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ نظامی صاحب آپ بھی توکچھ فرمائیے تو مجید نظامی صاحب کا جواب ملاحظہ فرمائیے جو ایک جملے پہ مشتمل تھا ’’پرویز مشرف صاحب آپ ملک کی جان کب چھوڑیں گے ‘‘۔ اس پر آمر کا چہرہ دیدنی تھا اور وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگ گیا۔ پاکستان کے جتنے بھی حکمران رہے وہ مجید نظامی صاحب کا بہت احترام کرتے تھے اور بعض نے ان سے اچھے راہ و رسم بھی پیدا کئے مگر انہوں نے کبھی بھی ان راہ و رسم کے باوجود خبر کی سچائی اور حقائق پر سمجھوتہ نہ کیا۔ ایک موقع پر انہیں پاکستان کی صدارت بھی پیش کی گئی مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اس محض وجہ یہ تھی کہ اگر وہ صدارت قبول کر لیتے تو اس جماعت کے کسی ناپسندیدہ اقدام پر کو اس کی مخالفت کرنے سے قاصر رہتے جس سے ان کی صحافیانہ اصول پسندی اور دیانت واضح طور پر آشکار ہوتی ہے۔ ایوب خان کے خلاف جب ذوالفقار علی بھٹو نے تحریک چلائی تو مجید نظامی سے صلاح و مشورے، ہدایات اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ’’نوائے وقت‘‘ کے پرانے دفتر کے قریب واقع شاہ دین بلڈنگ میں آکر ان سے ملاقات کے لئے خاصی دیر انتظار کیا کرتے تھے مگر جب بھٹو صاحب برسر اقتدار آئے تو مجید نظامی کی ادارت میں شائع ہونے والے ’’نوائے وقت‘‘ نے ہمیشہ ان کے کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی ہمیشہ تنقید کی اور درست سمت رہنمائی بھی کی جس پر بھٹو صاحب نے ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کیا مگر مجید نظامی صاحب سود و زیاں سے بے نیاز ہوکر ہمیشہ ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارتی صفحہ پر تحریر حدیث رسول کریمﷺ کہ ’’بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے‘‘ پر قائم رہے یہی وجہ ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کو اپنی پالیسیوں کے باعث ملک کا باوقار اخبار ہونے کا اعزاز آج تک قائم ہے۔ایک ایسے وقت میں جب کہ آمر پرویز مشرف کا طوطی بول رہا تھا اور کسی صحافی اور سیاستدان کی طرف سے اس کی مخالفت میں کچھ نہیں کہا جارہا تھا تو مجید نظامی مختلف تقاریب میں بہ بانگ دھل یہ کہتے رہے’’ہم نے گھر کی حفاظت کے لیے ایک دربان رکھا تھا وہ گھر پر ناجائز قبضہ کرکے اس کا مالک بن بیٹھا ہے اس کو چاہیے کہ وہ غاصبانہ قبضہ چھوڑ دے اور وہ کام کرے جس کے لئے اسے رکھا گیا ہے‘‘۔ پرویز مشرف نے بڑی کوششیں کیں اور کئی ذرائع استعمال کئے تاکہ مجید نظامی سے ان کے تعلقات استوار ہوجائیں اور ان کی حمایت حاصل ہو جس میں انواع و اقسام کی پیش کشیں بھی کی گئیں مگر آفرین ہے اس مرد آہن مجید نظامی کی کہ انہوں نے ان سب کو تج دیا، مسترد کر دیا اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کا بہترین جہاد کرتے رہے۔
’’نوائے وقت‘‘ کا اب تیسرا دور ہے جو محترمہ رمیزہ نظامی کی ادارت میں جاری ہے۔ محترمہ بیرون ملک کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور انہیں اپنے والد گرامی مجید نظامی کی زیر سرپرستی صحافت پر بھی خاصا تجربہ حاصل ہے اور وہ صحافتی اسرار و رموز کو بخوبی جانتی ہیں اور موقع محل کی مناسبت اور وقت کے تقاضوں سے بہ احسن طریق آشنا ہیں اور انہوں نے مجید نظامی کے چھوڑے ہوئے اعلٰی صحافتی معیار میں کمی نہیں آنے دی بلکہ عصر حاضر کی صورتحال کے مطابق انہوں نے اس میں خاطرخواہ اضافہ کیا جو ان کی فراست اور ذہانت کا آئینہ دار ہے۔