پاکستان نظریاتی مملکت ہے‘ لیکن اسکے قائدین کبھی بھی نظریاتی نہیں رہے۔ نظریاتی اسے کہتے ہیں جو اپنے نظریے پر کٹ مرے۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے جن اصحاب کو سولی پر چڑھایا‘ وہ سچ مچ نظریاتی تھے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو نظریاتی سیاستدان کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی فلسفے پر عمل کرکے دکھایا۔ انکے نظریے سے اتفاق ضروری نہیں۔ میدانِ صحافت میں ایک ہی شخصیت کو لاریب نظریاتی قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ جناب مجیدنظامی ہیں جن کا آج یوم ولادت ہے۔ پاکستانی میڈیا میں نظامی صاحب واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نظریاتی اور غیرنظریاتی میں حدِ فاصل قائم کی۔ نظریاتی ہونے کیلئے ضروری ہے کہ پائوں میں جنبش نہ آئے۔بڑے اور کڑے امتحانوں کا سامنا ہو اور اپنی جگہ سے ہلنے نہ پائے۔ ایسی خوبیاں مجیدنظامی صاحب میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ طویل دورانیے کے مارشل لائوں کی پروا نہ کی اور اپنے اپنے نظریے کا علم بلند رکھا کہ پاکستان اسلامی جمہوری مملکت ہے۔ یہ طالع آزمائوں کیلئے کھلونا نہیں۔ مجیدنظامی صاحب نے جابر سلطانوں کے سامنے سچ مچ اور انکے روبرو کلمۂ حق کہا۔ وہ کبھی دنیاوی منفعت کے پیچھے نہیں دوڑے‘ نہ ہی سرکاری اشتہارات کی پروا کی‘ نہ ہی معاصرین کے مقابلے میں ان اشتہارات کو اپنے اخبارات کیلئے آکسیجن جانا۔ مجیدنظامی نظریۂ پاکستان کے محافظ تھے۔ آپکے اس دنیا سے جانے کے بعد ’’نوائے وقت‘‘ اس نظریہ کا محافظ و نگہبان ہے۔ وہ جب بھی کسی سے ملتے برابری کی سطح پر ملتے۔ وہ کبھی کسی حکمران سے قطعاً مرعوب نہ ہوئے۔ ہر حکمران کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ نظامی صاحب سے وقت لے اور انکی بارگاہ میں حاضر ہو۔ بڑے سے بڑا سیاستدان ان سے ون آن ون ملاقات کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا تھا۔ مجیدنظامی کی شخصیت موجودہ دور کے صحافیوں اور سیاستدانوں کیلئے رول ماڈل ہے۔ نظامی صاحب نے نصف صدی سے زیادہ ہر جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہا۔ کیا آج کے دور میں ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟
ذاتی کردار کے حوالے سے انکے سارے معاصرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے انسان کی صورت میں فرشتہ سیرت صوفی اور درویش شخصیت نہیں دیکھی۔ نہ ہی ان کا ہم پلہ قائداعظم اور علامہ اقبال کا پیروکار دیکھا۔ انہوں نے کبھی بھی بڑے سے بڑے عہدے اور سرکار اعزاز کی خواہش ظاہر نہیں کی بلکہ صدرمملکت کے عہدے کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ آپ کو ایک نظریاتی اخبار کا ایڈیٹر ہونے پر فخر تھا۔ پنجاب یونیورسٹی نے اصرار کے بعد پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری کیلئے آمادہ کیا تھا۔ کیا پاکستان میں اس وقت ایسی کوئی شخصیت موجود ہے جسے بلا شرکتِ غیرے محافظ نظریۂ پاکستان کا خطاب دیا جا سکے۔ مجیدنظامی فرماتے تھے نظریہ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ آپ کو یقین تھا کہ پاکستان اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بن کر رہے گا۔ انکے نزدیک مسلمانوں کیلئے چودہ سو سال پہلے کتاب الٰہی کی شکل میں آئین نازل ہوا تھا۔ ان کا اس بات پر ایمان اور یقین محکم تھا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔ یہودوہنود کی باہمی دوستی اور اسلام دشمنی ہر دور میں عیاں رہی ہے۔ فلسطینیوں پر یہودیوں کے مظالم اورکشمیریوں پر ہندوئوں کے ہاتھوں ان کا عرصۂ حیات تنگ ہونا کس کو دکھائی نہیں دے رہا۔ مجیدنظامی اپنی ہر تقریر میں نظریۂ پاکستان کا مطلب واضح کرتے اور اسے نئی نسل کے اذہان و قلوب میں بسانے کی بات کرتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کیا تھا جسے آج بھی ڈاکٹر رفیق احمد جیسی نظریاتی ہستیاں چلا رہی ہیں۔ مجید نظامی قائداعظم کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ انہیں قیام پاکستان کے بعد چند سال اور مل جاتے تو وہ پاکستان کے غریب عوام کیلئے اپنا مشن پورا کر جاتے۔ قائداعظم نے کہا تھا پاکستان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا نہیں بلکہ غریبوں کا پاکستان ہوگا۔ وہ کہا کرتے تھے پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بن کر رہے گا جہاں ہر آدمی کو روٹی‘ کپڑا اور مکان ملے گا۔ بھٹو نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ہی غریب اور محکوم عوام کو اپنے گرد جمع کیا تھا۔ آج بھی جئے بھٹو کا نعرہ لگانے والے اسی انتظار میں ہیں کہ انکی تقدیر بدل جائیگی۔ مجیدنظامی کی زندگی کھلی کتاب تھی۔ فوجی آمریت اور سول حکمرانی دونوں طرح کے ادوار میں نظامی صاحب نے وہ باتیں حکمرانوں کے روبرو کیں جنہیں بڑے لوگ عام محفلوں میں کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ وہ مشکلات کے باوجود استقامت سے اپنی منزل کی جانب گامزن رہے۔ وہ تحفظ پاکستان کیلئے سب سے مضبوط اور آخری چٹان رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں صحافتی تاریخ میں جتنی خدمات مجیدنظامی کی ہیں‘ کسی دوسرے صحافی کو یہ اعزاز نصیب نہیں۔ آپ کا اپنے بھائی اور بانی ’’نوائے وقت‘‘ کے بارے میں کہنا تھا کہ حمیدنظامی مرحوم اب بھی میرے گائیڈ ہیں۔
لاہور کے تین کالجوں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ‘ ہیلی کالج آف کامرس اور گورنمنٹ کالج لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مجیدنظامی وہاں زیرتعلیم رہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ کا قاری اور لکھاری ہونا آج بھی حب الوطنی اور نظریاتی پاکستانی کی علامت گردانا جاتا ہے۔ مجیدنظامی کے خلاف کئی مقدمات بنے۔ اشتہارات بند ہوئے‘ لیکن وہ کلمۂ حق کہنے سے باز نہ آئے۔ نہ موجودہ دور کے بعض صحافیوں کی طرح حکمرانوں کے لائوڈ سپیکر بنے۔ ان کے نظریات بارے بہت سے اصحاب و احباب نے منہ بنایا مگر انہوں نے اسکی پروا نہیں کی اور قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات و فرموات کی اشاعت پر کمربستہ رہے۔