سجاد اظہر پیرزادہ
sajjadpeerzada1@hotmail.com
لاہور میں جدیدپیرو، ڈولفن فورس کی کارکردگی دیکھ کر اسے اب پورے صوبے میںلائے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔یہ فیصلہ خطرناک مجرموں، دہشتگردوں،اشتہاریوںاور سمگلروں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ روپوش ہونے کے واقعات کے نتیجے میں کیا گیا ہے ۔ نوائے وقت کرائم کارنر کو مجرموں کے ہی ایک منحرف گروہ کے ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق رحیم یار خان، راجن پور، ہارون آباد، اٹک،فیصل آباد ،گوجرانوالہ،جھنگ اوربہاولنگرمیں چھپے مجرموںنے خفیہ ٹھکا نے بنا رکھے ہیںجوعرصہ دراز سے سماج دشمنوں کی آماجگاہ بنے چلے آ رہے ہیں۔ان علاقوں میں ڈبرشکرگنج، پاکپتن بابافرید پل کے آس پاس کا دریائی علاقہ،بہاولپور، رحیم یار خان کے ریگستانی علاقے و دیگر شامل ہیں۔ پنجاب کے مختلف علاقوں سے دوسرے حصوںاور صوبوں کی طرف بھاگ نکلنے کی وجہ سے صوبائی دارلحکومت کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی فورس کا قیام ضروری سمجھا جا رہا ہے۔اس وقت خیبر پختونخوا میں بھی بدانتظامی کے باعث ان مجرموں نے''محفوظ قیام گاہیں'' بنا لی ہیں۔تاہم پنجاب کے علاقوں میں صورت حال قدرے بہتر ہے۔جس کی وجہ آئی جی پنجاب عارف نواز خان کی زیرنگرانی اے آئی جی آپریشنزپنجاب عامر ذوالفقار کی جانب سے پولیس کے سائنٹفک بنیادوں پر کئے گئے اقدامات ہیں۔ جس میںپولیس کے پاس زیادہ بہتر سواری ، ہتھیار اور تربیت کا انتظام شامل ہے۔اس سے قبل پنجاب میں پولیس اہلکاروں کے پاس گشت کیلئے پرانی موٹرسائیکلیں اور پرانا اسلحہ زیر استعمال تھا ، جبکہ سٹریٹ کرمینلز انتہائی تیز رفتار موٹر بائیک پر سوار واردات کر کے غائب ہوجاتے تھے اور ان کے پاس اسلحہ بھی جدید ہوتا تھا۔
لاہور کے بعد اب پورے پنجاب میں، ڈولفن فورس اور پیرو فورس کو پیٹرولنگ فورس کا حصہ بنایا جا رہاہے،یہ فورس جدید ہیوی بائیکس اورگاڑیوں پر جدید اسلحہ ، تربیت اور ساز و سامان سے لیس پورے پنجاب میں کام کریں گی- یہ تجربہ پہلے لاہور میں کیا گیا اور اب آئی جی پنجاب نے صوبے کے دیگر پانچ اہم شہروں میں ڈولفن فورس متعارف کروانے کے بعد اسے پورے پنجاب میں پھیلانے کی تیاری شروع کر رکھی ہے۔ کچھ ماہ پہلے ، پنجاب پولیس کی موجودہ قیادت تبدیل ہونے کے بعد سے، جرم کی دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے والے خطرناک گروہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ان گروہوں کو زیادہ تر مشکلات پنجاب کے اِن علاقوں میں ہیں، جہاں کبھی ان کا راج ہوا کرتاتھا۔یہ علاقے مقامی پولیس کے کرپٹ اور نااہل اہلکاروں کی وجہ سے بدامنی کا شکار رہے ہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق لاہور میں بالخصوص فورس کی مؤثر کارروائی کے بعدمجرم روپوش ہونے پر مجبور ہیں۔لاہور ہی کے ایک علاقے ماڈل ٹائون میں اشتہاری دہشتگردوں کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں اور یہ بھاگنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ اس گروہ کے دو اسمگلر،اشتہاری گرفتار ہوچکے ہیں، جو کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔
صوبے کی پولیس میں روایتی تھانہ کلچر کے خاتمہ کی سوچ حاوی ہونے کے بعدسے فورس کی تربیت کیلئے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی ہے۔ سب انسپکٹرز کے ابتدائی بیج کی جدید بنیادوتربیت اور جدید ساز وسامان کی وجہ سے ،جرائم پیشہ اور سماج دشمن بھاگنے پہ مجبور ہیں۔پولیس فورس میں بھرتی ہونیوالے اِن سب انسپکٹرز کے ابتدائی بیج کی تربیت ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقار خان نے کی تھی، جنہوں نے خود دوران ِتربیت بطور اے ایس پی، پولیس سروس کے دو اعلی ترین ایوارڈ پاکستان پولیس میڈل (PPM ) اور قائد اعظم پولیس میڈل (QPM )حاصل کر رکھے ہیں، ذرائع کے مطابق یہ تربیت یافتہ نوجوان اب پنجاب کے مختلف علاقوں میں تعینات ہو کر جرائم پیشہ سماج دشمن عناصر کوقانون کے کٹہرے میں لا رہے ہیں۔اِس سلسلے میں ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقارنے پوچھنے پر بتایا کہ جرائم پیشہ افراد پر قانون کا شکنجہ کس دینے سے ان کیلئے جگہ تنگ ہو گئی ہے۔ اْنہوں نے تفصیل کے ساتھ ہمیں بتایا‘آئی جی پنجاب کی قیادت میں جرائم پیشہ اور خطرناک افراد کوقانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے آپریشن مزید تیز کرد یا گیا ہے۔80 فیصد جرائم کنٹرول کرنے میں جدید ٹیکنالوجی نے خاص کردار ادا کیا ہے۔ میں نے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرتے وقت ہی یہ عہد کیا تھا کہ اب میری زندگی کا مقصد سماج دشمن عناصر کے خلاف جہاد ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ پولیس اور مجھے الگ الگ دیکھا جائے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ صحافی جرائم کی نشاندہی کرتے ہیںاور ہم مجرموں کو گرفتار کر کے قانونی کارروائی کے لئے عدالت میں پیش کرتے ہیں اس لحاظ سے ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔ آئی جی پنجاب کی ہدایت پر میں نے پنجاب بھر میں میڈیا مانیٹرنگ کا جدید نظام قائم کیا ہے جس کی بدولت اب یہ ممکن نہیں رہا کہ پولیس سے متعلق کوئی بھی خبر نشر یا شائع ہو اور وہ آئی جی صاحب کے علم میں نہ آئے ۔ میڈیا پر چلنے والی خبروں کو کائونٹر چیک بھی کیا جاتا ہے اور اس پر فوری ایکشن بھی لیا جاتا ہے ۔ ہمارا مقصد شہریوں کو پرامن معاشرہ فراہم کرنا ہے ۔ ہم اس وقت تک نتائج نہیں دے سکتے جب تک عوام کا ساتھ حاصل نہ ہو اس لئے شہریوں کو چاہیئے ہر لمحہ پولیس سے تعاون کریں اور پولیس سے خوف کھانے کی بجائے سماج دشمن عناصر کی نشاندہی کریں ۔ پنجاب میں اصلاحات کی بدولت کمیونٹی پولیسنگ کا آغاز ہو چکا ہے اورپولیس جدید تربیت اور ساز و سامان سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد آئی ٹی پراجیکٹس کا استعمال بھی کر رہی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے روایتی اور فرسودہ تھانہ کلچر کو شکست دے کر پیپر لیس جدید آن لائن سسٹم متعارف کروا دیا ہے جہاں انتہائی سخت چیک اینڈ بیلنس ہے ۔ اگر شہریوں کو تھانے میں اچھا ماحول ملے اور ان کی شکایت فوراً درج کرکے اس پر قانونی کارروائی شروع ہو جائے تو تقریباً اسی فیصد شکایات ختم ہوسکتی ہیں۔
صوبے میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شہریوں نے بتایا کہ ان کے علاقوں میں جرم اس لئے بھی پھیلتا ہے کہ تھانوں کا ماحول اچھا نہیں ہے، لوگ پولیس کے کچھ کرپٹ عناصر کے آڑے آنے کی وجہ سے بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اس حوالے سے پنجاب کے اہم ذمہ دار ہونے کے ناطے عامر ذوالفقار نے بتایا کہ آئی جی پنجاب عارف نواز خان کی لیڈرشپ میں پنجاب پولیس کمیونٹی پولیسنگ کے اصولوں پر کام کررہی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تھانوں کا ماحول بہتر نہ بنائیں۔ آپ خود کسی بھی تھانے میں جا کر دیکھ لیں کہ لوگوں کے ذہن میں ماضی کے روایتی تھانوں کا جو خاکہ بنا ہوا ہے وہ اب ختم ہو چکا ہے۔عوام کی پہلی شکایت یہی ہوتی تھی کہ ان کی شکایت درج نہیں کی جا رہی یا پھر شکایت تو درج ہو گئی ہے لیکن اب فوٹو کاپی نہ ہونے یا رجسٹر سے صفحہ ہی غائب ہو جانے کی طرح کے تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ آئی جی اختیارات سے تجاوز کرنے والے پولیس افسروں،اہلکاروںکے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔ ’’آپ سے جب بھی بات ہو آپ یہی بتاتے ہیں کہ کہ آئی جی پنجاب اختیارات سے تجاوز کرنے والے پولیس اہلکار یا افسر کے خلاف ہر صورت ایکشن لیتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ اگر کسی کی تھانے میں شنوائی نہ ہو،کسی اشتہاری،دہشتگرد کے متعلق بتانا ہوتو وہ کہاں جائے ؟ عامر ذوالفقار نے بتایا کہ، اگر کسی کے ساتھ کوئی بھی پولیس اہلکار یا افسر زیادتی کرے یا کسی کا مسئلہ میرٹ پر حل نہ ہو تواسے اب کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آئی جی آفس میں ہی 8787 کمپلینٹ سینٹر بنایا گیا ہے ۔ اس نمبر پر شہری فون یا ایس ایم ایس کر کے پولیس کے خلاف اپنی شکایات نوٹ کرواتے ہیں اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں اس پرایکشن ہو چکا ہوتا ہے ۔