اسلام آباد (صباح نیوز + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے لفظ دہشتگردی کی تعریف اور دہشتگردی کے مقدمات میں صلح ہونے سے متعلق مقدمہ میں فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔ عدالت عظمی نے انسداد دہشت گردی کے قانون پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تو سرکاری وکیل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ صلح تو کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے دیکھنا یہ ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے میں صلح ہو سکتی ہے، دہشت گردی کے مقدمات میں صلح نہیں ہو سکتی کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون صلح کی اجازت نہیں دیتا، فریقین کے مابین صلح پر قانون کو بدلا نہیں جا سکتا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دہشت گردی کی تعریف کا ایشو بہت وسیع ہے۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ فوجداری مقدمات کو بھی انسداد دہشت گردی کے قانون میں شامل کردیا گیا۔ انسداد دہشت گردی قانون میں لکھا گیا سیاسی جلسوں پر حملے دہشت گردی ہیں، کیا غیر جمہوری سیاسی جلسے بھی ہوتے ہیں؟ کیا جمہوری یا غیر جمہوری جلسوں کو جانچنے کیلئے انٹرویو کرنے پڑیں گے؟ انسداد دہشت گردی قانون میں ابہام ہی ابہام ہے۔ دہشت گردی قانون کی وسیع تشریح کرنی پڑے گی، منصوبے کے تحت عدم تحفظ پھیلانا دہشت گردی ہے، ہر جرم سے عدم تحفظ پھیلتا ہے، اگر کسی محلے میں چوری ہو تو پورا محلہ عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے، جرم عدم تحفظ کی نیت سے کیا جائے تو یہ دہشت گردی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ایک شخص کو قتل کرنے کیلئے آنے والا شخص پندرہ لوگوں کی جان لے تو یہ بھی دہشت گردی ہوگی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص نے منصوبے کے تحت قتل کیا تو وہ دہشت گردی ہوگی، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگر کسی شخص کا دشمن پٹرول پمپ پر کھڑا ہے قاتل دشمن پر گولی چلاتا ہے اورگولی دشمن کو چھو کر پٹرول ٹینک کو لگ جاتی ہے، پٹرول پمپ پہ دھماکہ ہوتا ہے، چار گاڑیاں تباہ ہوجاتی ہیں، نتائج کو کنٹرول کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اگر کسی کا دشمن پٹرول پمپ پہ کھڑا ہو دشمن پر گولی چلائی جو گورنمنٹ سیکریٹریٹ پہ پٹرول پمپ کو لگے توکیا یہ حکومت گرانے کی سازش سمجھی جائے گی؟ جرم کے نتائج سے نیت کو نہیں جانچا جا سکتا۔ ایڈووکیٹ برہان معظم نے موقف اپنایا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں چلانے کیلئے عام مقدمات بھی وہاں بھیجے گئے، فوجی عدالتوں میں بھی دہشت گردی کے مقدمات بھیجے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اقوام متحدہ ابھی تک دہشت گردی کی تعریف نہیں کر سکی، امریکہ بھی ابھی دہشت گردی کی تعریف سے متعلق حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکا۔ شور اٹھنے پر لوگوں کو چپ کرانے کیلئے مقدمہ فوجی عدالت اور دہشتگردی عدالت میں بھیج دیا جاتا ہے، جب کسی بارے میں میڈیا پر بہت شور اٹھے تو مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت بھیج دیا جاتا ہے، لگتا ہے یہ کوئی نفسیاتی معاملہ ہے، خصوصی برتائو کیلئے خصوصی عدالت میں مقدمہ بھیج دیا جاتا ہے، انشاء اللہ ہم دہشت گردی کی تعریف کریں گے، ہر سنگین جرم دہشت گردی نہیں ہے، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں تو عام مقدمات کا بھی ٹرائل ہو رہا ہوتا ہے۔ طاقت کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں پر ٹھونسنا بھی دہشتگردی ہے، اس دوران درخواست گزار کے وکیل نے کہاکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ یہ بات تخلیق کرنے والے کیلئے ہے، جج دل کا حال نہیں جانتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹرین میں رکھا جانے والا بم نہ بھی پھٹے تب بھی مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا، نتیجے کو سامنے نہیں رکھا جائے گا، چیف جسٹس نے کہاکہ خصوصی عدالتیں بنانے سے غلط اشارہ ملتا ہے۔