مجید نظامی نے میدان صحافت میں اپنے ملی و دینی فرائض کی بجا آوری میں جس ہمت‘ جرأت اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا‘ یہ کچھ انہی کا خاصہ تھا۔ نوائے وقت کی ادارت سنبھالتے ہی انہیں آمریت کے خلاف سرگرم عمل ہونا پڑا۔ انہیں جمہوریت کے علمبردار بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کے حاصل کردہ پاکستان میں آمریت ہرگز قبول نہیں تھی۔ اس کا ثبوت انہوں نے اُس وقت دیا جب ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒکے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے صدارتی انتخاب میں نوائے وقت کو مادرِ ملت کی صدارتی مہم کے لیے وقف کردیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے تک صحافت پر سب سے کٹھن اور مشکل دور ایوب خان کا دور حکومت تھا مگر مجید نظامی نے اس دور میں بھی آزادیٔ صحافت کا پرچم بلند رکھا۔ آمریت نے بڑے بڑوں کو مختلف دل کش ترغیبات سے رام کرلیا مگر آمروں کی کوئی کوشش مجید نظامی کے جمہوریت کی بحالی کے حق میں رویے میں لچک پیدا نہ کرسکی۔
مجید نظامی کی نصف صدی پر محیط صحافتی زندگی اس امر کی غماز ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کی آمرانہ اور جمہوری حکومتوں کے عروج و زوال کا مشاہدہ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ ایک محب وطن اور ملی خدمت کے جذبے سے سرشار صحافی کے طور پر ان کا قلم آمروں کے لیے تیغ بے اماں بنا رہا۔ پاکستان کو قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے جمہوری اور سیاسی تصورات کی روشنی میں ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کی کوشش سے انہوں نے کبھی صرفِ نظر نہ کیا اور ناقابل تردید حقیقت تو یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بھی مجید نظامی نے قومی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ جمہوری حکومتوں نے جب بھی کوئی غیر جمہوری انداز اختیار کیا یا پاکستان کے نظریاتی تشخص پر آنچ آنے والا کوئی ہلکا سا بھی اقدام کیا تو مجید نظامی ایسے اقدا م کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔
مجید نظامی محض ایک صحافی ہی نہیں بلکہ ایک قومی درد رکھنے والے محب وطن پاکستانی مسلمان تھے۔ سچے‘ کھرے اور نظریاتی پاکستانی۔ پاکستان کو دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنانے میں اُن کا کردار اظہر من الشمس ہے۔ ان کے نزدیک نظریۂ پاکستان جزو ایمان تھا۔ اس سلسلے میں اُنہوں نے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ کسی قسم کی مصالحت کے لیے آمادہ ہوئے۔ وہ ایک ادارہ ساز شخصیت اور قوم کے قابل فخر نظریاتی رہنما تھے۔
مجید نظامی اپنی پچاس سالہ صحافتی زندگی کے دوران محض اس وجہ سے ہر حکمران کے دل میں خار بن کر کھٹکے کہ اُنہوں نے حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر ان کے ہر اقدام کو سراہتے ہوئے ’’سب اچھا ہے‘‘ کہنا سیکھا ہی نہیں۔ ان کا دل ہر قسم کے ڈر اور خوف سے پاک رہا۔ وہ سچی اور صاف باتیں حکمرانوں کے منہ پر کہہ دینے میں عار اور جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ایک پاکستانی مسلمان صحافی کی حیثیت سے دینی اقدار کے تحفظ کیلئے بھی انہیں ہر وقت مستعد دیکھا گیا ۔ ان کا شمار خوش نصیب عاشقانِ محبوب خداؐ میں کیا جاسکتا ہے۔
میری مجید نظامی کی ذات سے تعلق کی بنیاد قائداعظمؒ کی ذات اور فکر اقبالؒ تھی۔ہم دونوں کا ان باتوں پر اتفاق تھا کہ اسلام نے جمہوریت کا سبق دیا‘پاکستان اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے،مسلمانوں کو سائنسی علوم و فنون پر خاص توجہ دینی چاہئے اور ہمیں تخلیق و جستجو کی عادت اپنانی چاہئے۔ مجید نظامی کے عقائد محض زبانی نہیں بلکہ عملی تھے۔ایٹم بم چلانے کا مرحلہ آیا تو مجید نظامی نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایٹم بم چلائیں۔ایٹمی دھماکہ کروانا مجیدنظامی کی اس ملک و قوم کیلئے بہت بڑی خدمت ہے۔