مجید نظامی… حب الوطنی کا استعارہ

انسان اپنی زندگی میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ عمر کے ہر حصے میں اس کے خیالات میں پختگی اور تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ میں نے پاکستان میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی نمایاں شخصیات کو دیکھا ہے اور تاریخ میں اپنا نام اور نقش چھوڑنے والی بڑی بڑی ہستیوں کے حالات زندگی کو بھی پڑھا ہے۔ اپنے محدود مطالعے اور مختصر مشاہدے کے تناظر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری حالیہ تاریخ میں اور خاص طور پر موجودہ دور میں اگر کوئی شخص وطن سے محبت اور اصولوں کی پاسداری کی بدولت لاثانی حیثیت اختیار کرنے میں کامیاب ٹھہرا تو وہ فقط اور فقط ایک شخصیت ہے جس کا نام مجید نظامی ہے۔ گو کہ وہ اب ظاہری طور پر ہمارے درمیان موجودہ نہیں لیکن یہ سوچ کر بھی لمحے بھر کے لیے دل و دماغ پر ناقابل بیان کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ زمانے بھر کو جلا بخشنے والے مجید نظامی اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اب اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی حفاظت اور اس کے دفاع کے لیے نظریاتی و جغرافیائی محاذوں پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند گرجنے والی آواز اب خاموش ہوچکی ہے۔ اگر نظامی صاحب کی زندگی پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ان کی شخصیت کے تمام پہلو چمکدار نظر آئیں گے۔ البتہ سب سے نمایاں وصف اور ان کی پہچان بن جانے والی خوبی ان کی بے مثال حب الوطنی تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ پاکستان کے قیام سے بھی پہلے وہ سچے پاکستانی تھے جس کا اعتراف تحریکِ پاکستان کے فرنٹ لائن رہنمائوں یعنی بانیان پاکستان نے اس طرح سے کیا کہ آپ کو مجاہد پاکستان کا سرٹیفکیٹ بھی ملا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے سب سے قریبی اور معتمد ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزدہ لیاقت علی خان نے آپ کو ایک تلوار بھی عطا کی۔ یہ سرٹیفکیٹ اور تلوار مجید نظامی صاحب کے لیے متاع حیات کی مانند تھے اور آج بھی محفوظ ہیں۔
یہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک سیاہ پہلو ہے کہ یہاں جمہوری حکومتوں سے زیادہ فوجی آمریتیں مسلط رہی ہیں۔ وقفے وقفے سے فوجی جرنیلوں کے شوقِ حکمرانی نے سیاسی نظام کے تسلسل کو متاثر کیا۔ کبھی ایوب اور کبھی یحییٰ کبھی ضیاء الحق اور ماضی قریب کے بدترین آمر پرویز مشرف کو سب سے زیادہ توانا مزاحمت کا سامنا مجید نظامی اور نوائے وقت کی طرف سے ہی کرنا پڑا۔ نظامی صاحب خود اپنی تقاریر میں ایسے بہت سے واقعات کا تذکرہ کرتے رہے ہیں کہ جن سے آپ کی بے باکی اور جرنیلوں کی سُبکی صاف نظرآتی۔ علاوہ ازیں بہت سے ایسے عینی شاہدین جو ابھی موجود اور گواہ ہیں کہ مجید نظامی صاحب ہر آمر اور اکڑی گردن والے حکمران کے لیے دھڑکے باعث تھے۔ یہ مقام و مرتبہ اور یہ شان بے نیازی انہیں محض اس لیے حاصل تھی کہ انہوں نے انفرادی مفاد اور ذاتی فائدے کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ اجتماعی قومی مفاد کو اپنا مطمع نظر رکھا۔ ان کے لیے ہر وہ بات ناقابلِ قبول تھی جس سے پاکستان کے مفاد کو زک پہنچنے کا خدشہ ہوتا۔ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن ہونے اور اپنے آبائو اجداد کی خالص تربیت کے باعث وہ ہندو ذہنیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ ہندوستان کو مسلمانوں کا ازلی اور حقیقی دشمن گردانتے اور مانتے تھے۔ کسی بھی شرط یا کسی بھی قیمت پر ہندو پر اعتبار کرنے کے سخت مخالف تھے۔ نہ صرف اپنی ذات کی حد تک ہندو ذہنیت کے خلاف تھے بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے۔ بہت سے مواقع ایسے بھی آئے کہ جب کسی حکومت نے بھارت کو ہمسایہ ملک سمجھ کر اس سے تعلقات اچھے کرنے یا تجارت بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا تو بہت سے مفاد پرستوں اور کاروباری حریصوں کے شوروغوغا کے باوجود آپ نے گرجدار لہجے میں اس کی مخالفت بھی کی اور بھارت کے ساتھ مکر پر مبنی تعلقات کے مضمرات سے بھی آگاہ کیا۔ مجید نظامی صاحب بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات اور دوستی کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرتے تھے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سڑکوں اور بازاروں میں ہونے والے بھارتی مظالم اور ہندوذہنیت کی سفاکی کو نوائے وقت کے صفحات کے ذریعے آپ نے پوری دنیا کے سامنے عیاں کیے رکھا۔
مجید نظامی صاحب کی سربراہی اور قیادت میں چلنے والے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے بھی مسئلہ کشمیر اور بھارتی ہٹ دھرمی کا تذکرہ واشگاف الفاظ میں ہوا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مجید نظامی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری کئی سال میں اپنی مصروفیات اور توجہات کا مرکز نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور اس کی activitiesکو بنالیا تھا۔ میری دانست میں ان کی ترجیح میں نظریۂ پاکستان کا احیاء و شعور اور وطن کی محبت کا درس پہلے دن سے شامل تھا۔ نصف صدی تک محنت کرکے نوائے وقت کے لیے ایک رستہ اور ضابطہ وضع کردینے کے بعد جب اُنہیں یقین ہوگیا کہ اب نوائے وقت انہی خطوط پر استوار رہے گا تو انہوں نے اپنی پہلی ترجیح کی طرف اعادہ کیا یعنی میں یقینی طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجید نظامی صاحب کی زندگی کا مقصد اولین اور مطمع نظر یہی تھا کہ ہماری آنے والی ہر نسل میں پاکستانیت کے حقیقی جذبات پنپتے رہیں۔ نسلیں آتی رہیں اور گزرتی رہیں لیکن کبھی بھی حُب الوطنی کا جذبہ ماند نہ پڑے۔ یہ وہ اکسیر ہے جس کے ذریعے ہم زندہ قوم کے طور پر پہچانے جاتے رہیں گے اور ہماری زندگی کا راز اپنے وطن سے سچی محبت میں ہی پنہاں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...