ایک سچے اور کھرے پاکستانی… مجید نظامی

مجید نظامی فیصل آباد کے قریب ایک دیہات نما قصبہ سانگلہ ہل میں 3 اپریل 1928ء کو پیدا ہوئے اس زمانے میں سانگلہ ہل میں دو ہائی سکول ایک گورنمنٹ کا اوردوسرا سکھوں کا۔ مجید نظامی کو گورنمنٹ سکول میں داخل کرایا گیا۔ جہاں انہوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ مجید نظامی اڑھائی برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، حمید نظامی ان سے تقریباً تیرہ برس بڑے تھے۔ انکے والد گرامی سانگلہ ہل میں صابن کا کاروبار کرتے تھے ان کا اسم گرامی میاں محمد دین تھا۔ اپنے شریک حیات کی وفات کے بعد حمید نظامی اور مجید نظامی کی والدہ محترمہ کو اپنا مکان اور دکان فروخت کرنا پڑا۔ مرحومہ ایک نیک اور پابند صوم و صلٰوۃ خاتون تھیں۔ بچوں کی پڑھائی کی خاطر انہیں اپنی جائیداد جو بھی تھی اسے فروخت کرنا پڑا تھا۔ اس نیک خاتون نے اپنے سب بچوں کو پڑھایا۔
سانگلہ ہل سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مجید نظامی کو بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم نے اپنے پاس لاہور بلا لیا اور انہیں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔ حمید نظامی کی رہائش بیڈن روڈ لاہور میں ایک کرائے کے مکان میں تھی اسی جگہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا دفتر بھی تھا۔ نوائے وقت ان دنوں ہفتہ وار تھا۔ مجید نظامی بھی اسی جگہ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے ساتھ رہنے لگے۔
قیام پاکستان کے بعد جب روزنامہ نوائے وقت کا اجراء ہوا تو اس کا دفتر شاہ دین بلڈنگ شاہراہ قائداعظم میں منتقل ہو گیا۔ روزنامہ نوائے وقت میں زمانہ طالب علمی ہی کے دوران میں مجید نظامی نے اخبار کی کاپیاں جوڑنا اور جڑوانا، انہیں اشاعت کے لیے پریس لے کر جانا اور وہاں سے چھپا ہوا اخبار لانا، اس کی ترسیل کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنا حتیٰ کہ قارئین اخبار سے چندہ وصول کرنا بھی انہی کے سپرد تھا۔
مجید نظامی نے اسلامیہ کالج لاہور میں 1944ء سے 1946ء تک دو برس گزارے اس دوران پڑھائی کے ساتھ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کے لیے بھی سرگرم عمل رہے۔ اس زمانے میں اسلامیہ کالج کے پرنسپل عمر حیات ملک تھے۔ انہوں نے کالج میں طلباء کو چھٹیاں دے کر کہا کہ ’’آپ نوجوان تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں۔ ان دنوں کالج کے ڈائریکٹر مین پاور سید قاسم رضوی تھے جو قیام پاکستان کے بعد وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ان کے دوسرے ساتھی شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی کے فرزند آفتاب قرشی تھے۔ حمید نظامی کو اس دور میں تحریک پاکستان میں سرگرم عمل ہونے پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے ’’مجاہد پاکستان‘‘ سرٹیفکیٹ بھی عنایت ہوا تھا۔ اس وقت لیاقت علی خان متحدہ ہندوستان کی کابینہ میں مرکزی وزیر تھے۔
مجید نظامی کو تحریک پاکستان کے دنوں کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی سنجیدہ بلکہ زنجیدہ ہوتے دیکھا گیا اور اس واقعہ کو کئی بار انہوں نے متعدد اجتماعات میں سنایا۔ ان کے بقول مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک جلوس لوئر مال لاہور سے گزر رہا تھاکہ جب وہ جلوس سنا تن دھرم کالج (موجودہ ایم اے او کالج) کے سامنے سے گزر رہا تھا تو ہندو طلباء نے عمارت کی چھتوں پر سے جلوس اینٹیں برسانا شروع کر دیں۔ ایک اینٹ مجید نظامی کے ساتھی کلاس فیلو عبدالمالک کے سر پر آ کر لگی اور وہ شہید ہو گئے ان کے خون کے چھینٹیں مجید نظامی کی قمیض پر پڑیں۔ عبدالمالک تحریک پاکستان کے پہلے شہیدتھے انہیں قبرستان میانی صاحب میں غازی علم الدین شہید کے مقبرہ کی طرف جانے والی سڑک کے کنارے دفن کیا گیا۔ مجیدنظامی بتایا کرتے ہیںکہ انہوں نے اپنے دوست عبدالمالک شہید کے فون سے تربتر اپنی قمیض کو برسہا برس سنبھالے رکھا بعد میں وہ کہیںکھو گئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کے بعد1954ء میں مجید نظامی کو بڑے بھائی حمیدنظامی نے اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھجوا دیا۔ اس سے پہلے قریباً چار برس تک مجید نظامی اخبار نوائے وقت میں فکاہیہ کالم سرِراہے لکھتے رہے لندن میں انہوں نے انٹرنیشنل افیئرز میں دو سال کا کورس کیا، ساتھ ساتھ نوائے وقت کے نامہ نگار کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ اسی دوران مکتوب لندن کے عنوان سے ان کی ڈائریاں نوائے وقت میں شائعء ہوتی رہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ مجید نظامی انیسویں اور بیسویں صدیوں کے اس بڑے حصے پر محیط میدان صحافت کے سالار ہیں۔ جس کا شرف کسی دوسرے صحافی کوحاصل نہیں ہوا مجید نظامی خوش رنگ ، خوش رو اور خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ خوش پوش بھی ہیں۔ دنیائے صحافت میں ان صفات کی پیکر شخصیات کم کم ہی ملتی ہیں۔ ایسی تمام خوبیوں کے علی الرغم مجید نظامی قدیم انداز اور جدید روایات کا خوبصورت امتزاج ہیں وہ قلم کے دھنی ہیں ان کا انداز نگارش جہاں تیز چبھتے ہوئے تیکھے اور نوکیلے فقروں سے مزین ہوتا ہے وہاں مجلسی زندگی میں ان کی گفتگو کا لہجہ ریشم اور شبنم سے مماثلث رکھتا ہے۔ مجید نظامی اول و آخر اخبار نویس ہیں ، ایسا اخبار نویس جو بحرانوں کے تھپیڑے سہتی ہوئی قوم کی بے بسی و مایوسی میں عزم اور حوصلہ کے چراغ چلانے کا فرض پہچانتے اور بخوبی ادا کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن