مجید نظامی کا نام سنتے ہیں ایک خوبصورت اور انتہائی نفیس مگر مزاحمت سے بھرپور شخصیت کا نقشہ کھینچتا چلا جاتا ہے ،اس حسین احساس کو آپ یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی شخصیت جس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اور ان کی زندگی کی کتاب سے صرف ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ وہ ’’ حق بات پر ڈٹ جانے ‘‘ کے اصول پر اس قدرڈٹے ہوئے تھے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی رتی برابر پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ یوں تو مجید نظامی صاحب مرد مجاہد اور حق گوئی کہنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے مگر وطن عزیر کے دفاع،عزت و ناموس، کشمیر کی اہمیت ،کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور نظریہ پاکستان پر کسی صورت اور کسی بھی قیمت پرکسی بھی صاحب اقتدار کو ذرا برابر بھی قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اصولوں سے ہٹنے کی اجازت تو کجا بلکہ جسارت پر بھی اپنی قلم سے خوب مزاحمت کرتے ہوئے زیر کر دیا کرتے تھے۔ جب بھی مجید نظامی کو پایہ وہ گمان اور حقیقت سے بھی کہیں بڑھ کر اپنے اصولوں کے سامنے بڑے سے بڑے مفادات کو جوتے کی نوک پر رکھ کر گزر جانے والی شخصیت کے طور پر ہی ملے ۔ آج میرے محسن اور مربی ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کا یوم پیدائش انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے ۔
دو قومی نظریہ‘ مسئلہ کشمیر‘ پاکستان سے لازوال کمٹمنٹ‘ مستحکم ادارے ،ہر آمر جابر کے سامنے سینہ سپر ہونا مشکل ترین حالات میں بھی کھری بات کہہ جانے کے حوالے سے ان کے کام‘ انکی کوششیں اور ان کے خیالات کے حوالے سے پورا ملک معترف ہے ،میں نے اپنے تئیں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ــ’’جو لوگ کچھ کر جاتے ہیں وہ رہتی دنیا تک کمال کر جاتے ہیں ،ان کی کاوشوں کو ہر سال اسی لئے دہرایا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے وہ رول ماڈل رہیں۔ ہماری نسلیں ان کے کام سے سیکھیں اور آگے بڑھیں‘‘۔ مجید نظامی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اپنے نظریات کا تعین کرکے اور ایک مخصوص ’’گول‘‘ کو سیٹ کرکے آگے بڑھنا چاہئے وہ ہر حکمران کے سامنے سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کا مشن تھا کہ دو قومی نظریئے پر کبھی آنچ نہ آئے وہ کشمیر کے حوالے سے درد دل رکھتے تھے۔
آج جب خبروں میں کشمیریوں کی حالت دیکھیں‘ ان کی پاکستانی پرچموں میں لپٹی لاشیں دیکھیں اور ان پر بربریت دیکھیں تو یقین مانیں دل مجید نظامی صاحب کو یاد کرکے خون کے آنسو رویا۔ آج بھارت اپنے مکروہ عزائم اور ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی کر رہا ہے اگرچہ اس بھارتی سفاکیت سے نوجوانوں کے حوصلے متزلزل نہیں ہوئے لیکن اس سے کشمیریوں کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ ہمارے لئے یہ صورتحال اس حوالے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔
میرے خیال میں مجید نظامی اگر آج زندہ ہوتے یا ان کی زندگی میں اگر اس طرح کشمیریوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہوتا تو یقیناً وہ پورے ملک میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے کام کرتے اور کشمیریوں کے جذبہ جہاد کو بلند کرنے کیلئے آخری حد تک جاتے اور ان کے دور میں جب بھی کشمیر کا معاملہ اٹھا‘ مجید نظامی نے اسے عالمی سطح پر آواز بلند کرنے کیلئے کام کیا۔ انہوں نے پاکستان بھر میں اس حوالے سے کام کیا۔ مجید نظامی کشمیریوں کی آواز تھے اور انہوں نے ہمیشہ اس مسئلے پر تمام تر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا ۔ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو روکنے والا کوئی مؤثر ہاتھ نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک مجید نظامی حیات تھے کشمیر کا جذبہ پاکستان کے لوگوں میں کشمیرکے عوام میں اور حکومت میں کبھی ٹھنڈا نہیں ہوا، وہ کہا کرتے تھے کہ’’ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کوئی بھی شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا،اگر کسی ملک کی شہ رگ کسی دشمن نے دبوچ رکھی ہو تو وہ ملک قائم نہیں رہ سکتا‘‘آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ وہ کس قدر اپنے آفاقی اصولوں پر کاربند تھے کہ’’ ان کی شریک حیات کا تعلق سری نگر سے تھا اور جب بھی کبھی انہیں گھر سے فرمائش ہوتی تو وہ اپنے اصول اور اپنی اس بات پر قائم رہے کہ کشمیر آزاد ہوگا تو جائیںگے‘‘۔
نظامی صاحب کے ساتھ جتنا وقت گزرا وہ یہاں بیان نہیں کر سکتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ آپ اہل کشمیر کے حقیقی پشتیبان اور محسن تھے کشمیر کے حوالے سے حکومت کی ہر کمزور پالیسی کی انہوں نے بروقت گرفت کی حتی کہ مسلم لیگ کے نام پر بننے والی حکومتوں کی لغزشوں کو بھی انہوں نے کبھی معاف نہ کیا‘ وہ واحد بے باک صحافی تھے جو برملا کہتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے ہمیں جنگ بھی کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایٹم بم تک استعمال کرنے کی نوبت آئے تو استعمال کر لینا چاہئے۔ کئی بار کہا کہ’’ مجھے ایٹم بم کے ساتھ باندھ کر فائر کر دیں تاکہ ہندو استعماریت اپنے انجام کو پہنچ سکے ‘‘وہ کشمیریوں کے جذبات کو صحیح معنوں میں جذبات کی ترجمانی کہا کرتے تھے، ٹی وی پر بھارتی فوج کے مظالم دیکھ کر اکثر پریشان ہو جایا کرتے تھے اور اس کرب میں مبتلا ہوکر اکیلے کہیں بیٹھ جایا کرتے تھے اور سوچوں میں گم ہو جاتے۔ یعنی کشمیر اور مجید نظامی اس حد تک لازم و ملزوم تھے کہ وہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہتے تھے اور کشمیر کے بغیر پاکستان بھارت تعلقات کو آگے بڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔
لیکن ان کی وفات کے بعد کشمیر کا مسئلہ کبھی سیاسی طور پر ابھارا جاتا ہے تو کبھی مصلحتوں کا شکار ہوکر کشمیریوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کبھی مذاکرات کا ڈھول باندھ دیا جاتا ہے تو کبھی دونوں ملکوں کا مشترکہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان کے نزدیک کشمیر کے مسئلے کوحل کئے بغیر پاک بھارت مذاکرات کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی وہ اپنی زندگی میں اس پر نہ صرف کاربند رہے بلکہ انہوں نے اس کاز کیلئے حکومتوں کو سرنگوں بھی کیا۔ مجید نظامی کی رحلت کے بعد ان کی صاحبزادی رمیزہ نظامی نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے اور مجید نظامی مرحوم کے دور میں اخبار کیلئے بنائی گئی پالیسی پر کاربند رہ کر مسئلہ کشمیر کو سرفہرست کوریج دی جاتی ہے اور پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح نظریہ پاکستان کے تحفظ کے متعلق مواد کو بھی اخبار میں نمایاں جگہ دی جاتی ہے ۔ نظریہ پاکستان کے متعلق تقریب کی کوریج اولین ترجیح ہے۔
آخر میں بس یہی کہوں گا کہ اے کاش مجید نظامی 10 سال اور زندہ رہتے توکشمیریوں کی اس کاوش کو دیکھتے اور اس قوم کو جگاتے جو اب صرف ٹی وی کے بیانات‘ ویڈیو کلپ چلانے کے علاوہ کوئی عملی کام نہیں کر رہے وہ دیکھتے آج اسرائیل‘ بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ کس طرح مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور عالم اسلام کے بڑے بڑے ممالک خاموش ہیں وہ دیکھتے کہ کشمیر ایشو کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کیلئے بنائی جانے والی کمیٹی کا مقصد کیا رہ گیا ہے؟ اسلام آباد میں بیٹھ کر محض مذمتی بیانات جاری کرنا کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ ایک مذاق ہے اس ماحول میں اب دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں مجید نظامی جیسے حکمران بھی عطا کردے جو کسی کے درد کو سمجھتے ہوں جو کشمیر کے حوالے سے جہادی طبیعت رکھتے ہوں یا جو کسی مقصد کو آگے لیکر چلتے ہوں، اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین