لاہور (احسان شوکت سے) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میںشامل دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے نہ صرف ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور حکومت کے خلاف نوراکشتی کے الزمات عائد کرنا شروع کردئیے ہیں بلکہ پوائنٹ سکورنگ کے لئے ایک دوسرے کو پنجاب حکومت اور چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کے مشورے بھی دئیے جانے لگے، مگر عملا دونوں جماعتوں کے راستے جدا جدا ہو چکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل پیپلزپارٹی کے دیگر دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) سے اسمبلیوں سے استعفے دینے کے معاملے پر شروع ہونے والے اختلافات کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نامزدگی پر بھی دونوں بڑی جماعتوں میں ٹھن گئی تھی۔ مریم نواز کی 26 مارچ کو نیب میں پیشی پر پیپلز پارٹی کے اظہار یکجہتی سے مفاہمت کے لئے پیدا ہونے والی امید سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کے قائد حزب اختلاف بننے کے بعد بالکل دم توڑ گئی اور دونوں جماعتوں میں مفاہمت کی بجائے فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ دونوں جماعتوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پورا زور لگانا شروع کردیا ہے۔ بظاہر پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو مشورے دے رہی ہے کہ عثمان بزدار حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں۔ پیپلز پارٹی اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے کر ان کی پنجاب میں حکومت لانے میں مدد کرے گی جبکہ مسلم لیگ (ن) کی پیشکش ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے پاس اب 30 ووٹ ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کے 27ووٹ ملا کر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لائیں۔ مگر اصل حقائق اور صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں دراڑ پڑنے کے بعد دونوں جماعتیں اپنے اپنے راستے پر چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ پی ڈی ایم میں اختلافات کے اگلے روز ہی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر سردار لطیف اکبر اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر احسن نے لاہور میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ جولائی 2021 میں آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں پی پی پی کسی اتحاد کے بغیر الیکشن لڑے گی۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا پی ڈی ایم اے سے لاتعلق جماعت، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملاقات کے لئے منصورہ لاہور آنا اور سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کے قائد حزب اختلاف کے لئے جماعت اسلامی کی تائید حاصل کرنا بھی پیپلزپارٹی کی مسلم لیگ (ن) سے دوری کی حقیت آشکارا ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے جو سیاسی فائدے حاصل کرنے تھے، وہ اس نے حاصل کرلئے ہیں۔ سینٹ میں پیپلز پارٹی دوسری بڑی جماعت بننے کے ساتھ یوسف رضا گیلانی قائد حزب اختلاف بن گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ اب بھی قانون سازی کے معاملے پر بارگیننگ پوزیشن رکھتی ہے ۔ دونوں جماعتوں کے اکھٹے چلنے کا فیصلہ کر بھی کرلیا تو اعتماد قائم ہوتے ہوتے بہت وقت لگے گا۔
طعنہ زنی الزامات جاری عملا پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے راستے جدا
Apr 03, 2021