اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی صورتحال بحال ہونے تک پاکستان کسی قسم کی تجارت نہیں کرے گا۔ ہم کشمیر کو نظرانداز کر کے تجارتی تعلقات بحال نہیں کر سکتے۔ جمعہ کو وزیراعظم کی زیر صدارت معاشی ڈپلومیسی پر اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی، وزیر خزانہ حماد اظہر، شیریں مزاری اور دیگر شریک ہوئے۔ اجلاس میں بھارت سمیت دیگر ممالک سے تجارت کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ اس کے علاوہ بھارت سے کپاس اور چینی کی درآمد سے متعلق ای سی سی سے سمری کی منظوری پر ابہام پر بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزارت خارجہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارت سے متعلق تجاویز پر بریفنگ دی گئی۔ بھارت سے تجارت سے متعلق کابینہ کے فیصلے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان موجودہ حالات میں بھارت سے کسی قسم کی تجارت نہیں کرے گا۔ ذرائع کا بتانا ہے اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارت بحال نہ کرنے اور مقبوضہ کشمیر کی آئینی صورتحال بحال ہونے تک بھارت سے تجارتی تعلقات بحال نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم عمران نے کہا کہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہو گی۔ اس سے غلط تاثر جائے گا کہ ہم کشمیر کو نظرانداز کرکے بھارت سے تجارت شروع کریں۔ کشمیر کو حق خودارادیت دیئے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ بھارت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے سازگار ماحول ضروری ہے۔ بھارت 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرے۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت گلگت بلتستان میں مواصلاتی روابط میں مزید بہتری لانے کے حوالے سے اجلاس جس میں وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور، وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق، وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید و دیگر سینئر شرکاء موجود تھے۔ شمالی علاقہ جات میں مواصلاتی روابط اور انٹرنیٹ کی سہولیات میں مزید بہتری لانے کے حوالے سے مختلف منصوبوں اور متعلقہ امور پر غور کیا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان کی ترقی کیلئے پرعزم ہے۔ گلگت بلتستان کی ترقی کے لئے تاریخی ترقیاتی پیکج کی منظوری دی جا چکی ہے جس سے علاقے میں تعمیرو ترقی کا نیا باب روشن ہوگا۔.
اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) بھارت سے کپاس اور چینی کی درآمد کے حوالے سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سفارشات پر وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور دیگر کابینہ ممبران سے تفصیلی مشاورت کے بعد ان سفارشات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ مشاورتی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ بھارت کی جانب سے سازگار ماحول فراہم کیا جائے اور 5اگست2019کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات پر نظرثانی کرے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے حکومتی معاشی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ درآمدات کے متبادل ذرائع کے حوالے سے متعلقہ شعبوں کی سہولت کاری کے لئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ حکومت کے مروجہ قواعد و ضوابط کے مطابق مختلف تجاویز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کی جاتی ہیں جن پر معاشی اور اقتصادی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا ہے اور بعد ازاں اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے کابینہ کے سامنے توثیق اور حتمی منظوری کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے خالصتاً کمرشل نقطہ نگاہ سے درآمد کی سفارشات کابینہ کے لئے مرتب کی گئی تھیں جن کو وفاقی کابینہ نے نامنظور کیا تھا۔ اس سے یہ تاثر قائم کرنا درست نہیں کہ حکومت اپنے فیصلے بار بار تبدیل کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ فیصلہ گذشتہ روز کابینہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا تاہم کابینہ ممبران کی جانب سے یہ معاملہ اٹھانے پر وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ فوری طور پر موخر کر دیا جائے۔