مجید نظامی شگفتہ مزاج، محسور کُن شخصیت

میاں محمد ابراہیم طاہر 
 ڈاکٹر مجید نظامی ایک ایسی شخصیت تھے کہ جن سے ایک دفعہ مل کر انسان ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان کی مسحور کن شخصیت ، شگفتہ چہرہ ، سرخ و سفید رنگت، دائمی مسکراہٹ ، عینک کے دبیز شیشوں کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی عقل و دانش سے بھرپور آنکھیں دل میں اتر جاتی تھیں۔ الحمد للہ میری ان سے تقریباً نصف صدی کی یاد اللہ تھی ،  ان کے یوم پیدائش پر کچھ  یادیں قارئین نوائے وقت کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ 
یہ اکتوبر 1972ء کی بات ہے نوائے وقت میں میرا سفرنامہ ’’کابل میں چند روز‘‘ قسط وار چھپنا شروع ہوا تھا۔ اُن دونوں اخبارات  عام مضامین ، سیاسی تبصرے اور تجزیے ادارتی صفحہ یا اخبار کے اندرونی صفحات پر ہی شائع ہوتے تھے۔ میرے سفر کابل کی ابھی دو قسطیں ہی شائع ہوئی تھیں کہ ایک روز قیوم اعتصامی (مرحوم) نے خطوط سے بھرا ایک تھیلا مسکراتے اور ہنستے ہوئے  میز پر لا کر الٹ دیا۔ سب خطوط نوائے وقت کی معرفت میرے نام آئے ہوئے تھے۔ یہ قارئین کی طرف سے میرے سفرنامے کی پسندیدگی کا اظہار تھا۔بقول قیوم اعتصامی، اس سلسلے کو   نظامی صاحب نے خود بھی پسندفرمایااور ملاقات کی خواہش کے ساتھ حکم دیا تھاکہ تمام خطوط صاحب تحریر تک پہنچا دئیے جائیں ۔ اُن دنوں نوائے وقت کا دفتر شاہ دین بلڈنگ کی بالائی منزل پر ہوتا تھا جہاںنیچے گرائونڈ فلور پر  قومی ائیر لائن پی آئی اے کا بکنگ آفس تھا،جبکہ میرااپنا دفتر بھی وہاں سے قریب ہی نقی بلڈنگ میں واقع تھا۔ 
میں اکثر اپنے مضامین نظم و نثر دے آیا کرتا تھا اور کبھی کبھی مجید نظامی صاحب سے سامنا ہوتا بھی تھا تو بات سلام دعا سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ ان کی شخصیت با رعب ، سنجیدہ اور متانت سے بھرپور تھی۔ ایک روز میں پی آئی اے کے دفتر ٹکٹ بنوانے گیا تو ذہن میں آیا  نوائے وقت کے دفتر نظامی صاحب سے  ملاقات کی جائے چنانچہ نوائے وقت کے دفتر پہنچ کر ان کے پی اے کواپنا وزٹنگ کارڈ دیا اور بتایا کہ نظامی صاحب نے مجھے یاد فرمایا ہے۔ پی اے کے دفتر میں مجھ سے پہلے دو تین اور صاحبان بھی نظامی صاحب سے ملاقات کے منتظر بیٹھے تھے۔ پی ا ے  نے بتایا کہ نظامی صاحب گھر سے چل پڑے ہیں اور چند منٹ میں دفتر پہنچنے والے ہیں۔مجید نظامی صاحب جیسے ہی دفتر میں داخل ہوئے  پی اے  نے میراوزٹنگ کارڈ انہیں تھما دیا۔ مرحوم نے فوراً ہی مجھے اندر بلالیا اوراپنی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے نہایت خلوص ، پیار اور محبت سے مسکراتے ہوئے گرمجوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور خود کرسی پر بیٹھنے سے پہلے مجھے اپنے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر بے تکلف سے مجھ سے پنجابی میں پوچھنے لگے:  ’’کی حال اے؟‘‘ ان رسمی جملوں کے بعد میری ملازمت ، مشاغل اور دیگر مصروفیات کے بارے میں بات کرتے ہوئے میرے سفر نامے کی بے حد تعریف کی میں نے نہایت انکساری اور عاجزی سے انہیں بتایا کہ ’’یہ سب حمید نظامی مرحوم اور آپ کی تحریروں کے مطالعے کا اثر ہے کہ مجھے قلم پکڑنے کا حوصلہ ہوا‘‘ 
کہنے لگے ’’نہیں ! آپ کی محنت کا ثمر ہے‘‘ میرے وزٹنگ کارڈ پر اس کمپنی کا نام  دیکھ کرفرمانے لگے۔ ’’بقول حفیظ جالندھری صاحب یہ فرم تو مال روڈ کا ’’پر ستان‘‘ ہے۔ آپ ضرور وہاں راجہ اندر بن کر بیٹھتے ہونگے؟‘‘ میں نے حفیظ صاحب کی ذرہ نوازی پر بتایا ہے کہ وہ جب بھی اپنی گاڑی ہماری فرم میں سروس کے لئے لاتے ہیں تو میرے دفتر کو رونق بخشتے ہیں ۔ اس پندرہ بیس منٹ کی ملاقات میں اُس روز پہلی دفعہ مجھ پر مجید نظامی کی ہنس مکھ ، زندہ دل اور دل و دماغ کا مسخر کر لینے والی طبیعت کا انکشاف ہوا۔ 
اس کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم سے اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ بھارت کے بارے میں ان کے خیالات و نظریات سے ہر کوئی واقف تھا اور بھارتی حکومت ،پروپیگنڈہ محاذ پر نوائے وقت کو  اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتی تھی اور پاک بھارت دوستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتی تھی۔ اکتوبر 1977ء میں ، میں نے اپنا بھارت کا پہلا سفرنامہ ڈرتے ڈرتے مجید نظامی صاحب کو بھجوایا مجھے امید نہیں تھی کہ نوائے وقت میں جگہ پا سکے گا لیکن کیا بات کہ فوراً ہی بلا کم و کاست قسط وار شائع ہونا شروع ہو گیا۔ دراصل بھارت کے بارے میںمیرے اپنے خیالات و نظریات بھی مجید نظامی صاحب سے ملتے جلتے تھے اور میں نے سفرنامے میں بھارت کے اپنے ذرائع ابلاغ سے منظر عام   پر آنے والی سیاستدانوں ، سرکاری افسروں ، ججوں اور پولیس وغیرہ کی کرپشن‘ بدعنوانی‘ ٹیکس چوری اور وسیع پیمانے پر منی لانڈرنگ کو بے نقاب کیا تھا۔میرا کابل کا دوسرا سفرنامہ اکتوبر 1978ء میں نوائے وقت کی 6 اقساط میں شائع ہوا۔ 1972ء سے 1978ء تک 6 سال کے دوران کابل میں اپنے بادشاہ ظاہر شاہ کو جلاوطن کرنے والے سردار دائود کی حکومت کا تختہ الٹا جاچکا تھا اور کیمونسٹوں اور روسی گماشتوں کے ہاتھوں اپنے خاندان سمیت مارا جاچکا تھا۔ اس کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ  وہ افغانستان میں کیمونسٹوں کے خلاف  پاکستان اور صدر ضیاء الحق سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا تھا ۔ روس کی پشت پناہی سے کمیونسٹوں نے مسند اقتدار پر بظاہر نور محمد ترکئی کو بٹھا دیا تھا لیکن اصل اقتدار روسیوں کے اپنے ہاتھ میں تھا۔
نور محمد ترکئی کے بعد وزیر خارجہ حفیظ اللہ امین کو برسراقتدار لایا گیا،حتیٰ کہ دسمبر 1979ء میں حفیظ اللہ امین کو کچل کر روس ببرک کارمل کی  گماشتہ حکومت لے آیا۔ کابل میں قتل و غارت کا یہ کھیل جاری تھا کہ مجاہدین نے ملک کے بڑے حصے کو کمیونسٹوں سے آزاد کراکے اسلامی حکومت قائم کرلی اور کابل کی افواج کی اکثریت اسلحے سمیت مجاہدین سے جاملی اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے روسی فوج  افغانستان  میں داخل ہو گئی۔
مجید نظامی صاحب نے میرے اس سفرنامے کو بہت پسند کیا اور میری بہت حوصلہ افزائی کی اور مجھے اپنے ادارے میں شمولیت کی دعوت دی تاہم میں نے نہایت انکساری اور عاجزی سے معذرت کرلی۔مارچ 1979ء میں مجھے ایک وفد کے ساتھ دہلی جانے کا موقع ملا تو میں نے مسز اندرا گاندھی کا انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا جو ان دنوں اقتدار سے محروم حزب اختلاف میں تھیں۔ان کے سیکرٹری غلام نبی آزاد نے 21 مارچ 1979ء کو مسز گاندھی سے میری ملاقات کرا دی ۔میں نے واپسی پر اس سفر کی روئیداد اور انٹرویو الگ سے لکھ کر  نظامی صاحب کو پہنچا دیا۔ سفرنامہ تو فوراً ہی شائع ہونا شروع ہوگیا لیکن انٹرویو اور مسز گاندھی کے ساتھ میری تصویر ندارد۔تین دن انتظار کے بعد میں نظامی صاحب سے دفتر ملنے گیا تو  کہنے لگے (پنجابی میں)’’ایس ماسی نوں ملن واسطے دلی گیا سی‘‘ خیرنظامی صاحب پوری عبارت پہلے ہی سن چکے تھے صرف ایک لفظ بدل کر اشاعت کیلئے بھیج دیا۔ یہ انٹرویو نوائے وقت میں 26 مارچ 79ء کو شائع ہوا‘ جرمنی جانے سے پہلے ملنے گیا تو کہنے لگے’’تن مہینے جرمنی رہنا اے تو اوتھوں کج نہ کج لکھ کے بھیجدا رہیں‘‘ پھرپی اے سے میرے کوائف نوٹ  کر کے پریس کارڈ جاری کرنے کا کہااور دعا دیتے ہوئے الوداع کیا۔جس کے بعد مین وہا سے ہفتہ وار ڈائری لکھ کر بھجواتا رہا۔ 2003ء میں میں امریکہ سے واپس آیا تو ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ملاقات ہورہی تھی،اب میں باریش تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے نہیں پہچانیں گے،لیکن انہوں نے فوراً پہچان لیا اور گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھنے لگے:
’’توں کتھے غیب ہوگیا سی‘‘میں نے اپنی کتھا سنائی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا:ـ’’ہن جے واپس نہیں جانا تے اپنے آپ نوں ایس ادارے واسطے وقف کردے۔ 2012ء میں مجھے تقریباً ایک سال کیلئے برمنگھم جانا پڑا تو مجھے وہاں کے لئے نوائے وقت اور نیشن کیلئے نمائندہ مقررکردیا۔2014ء میں میں  جب دوبارہ برمنگھم (یو کے) جارہا تھا۔ نظامی صاحب سے ملنے دفتر گیا تو معلوم ہواکہ ’’صاحب آج کل دفتر نہیں آرہے طبیعت قدرے ناساز ہے‘‘ برمنگھم میں 25 جولائی (رمضان المبارک کی ستائیسویں) کو میں نے خبروں کیلئے  پاکستانی چینل لگایا تو مجید نظامی کی رحلت کی خبر کا ٹکر چل رہا تھا میں کلیجہ مسوس کے رہ گیا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔آج  معمار نوائے وقت کی  ولادت کا دن ہے ۔دعا ہے رب العالمین ان کی تربت کو ہمیشہ اپنے نور سے منور رکھے۔

ای پیپر دی نیشن