تاریخ کے مطالعہ سے یہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جرأت اور حق گوئی کی داستان کے پیچھے وہ عظیم اور بلند سوچ کی وہ کہانی پوشیدہ ہوتی ہے کہ جس سے معاشرے کا تنفس بحال ہوتا ہے اور جن راہوں پر چل کر بہترین معاشرتی اقدار اور راستوں کا تعین کیا جاسکتا ہے ایک مغربی مفکر کہتا ہے کہ اگر آپ کسی جدوجہد سے یہ دو عناصر نکال دئیے جائیں تو مقصد کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو کامیابی کا حصول ممکن نہیں جناب مجید نظامی ان دو صلاحیتوں کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ سچ اور بے باکی جیسی صلاحیت سے مبرا تھے اور کمال صفت یہ تھی کہ جناب مجید نظامی نے 1940 میں جناب حمید نظامی کی سرکردگی نوائے وقت کے کاروں کو مزید آگے بڑھایا اس دور میں تحریک آزادی کے لئے اٹھنے والی آوازوں میں نوائے وقت کی آواز بڑی مضبوط اور مؤثر تھی جناب مجید نظامی نے مسلسل جدوجہد کی ظلم کے خلاف جہاد اور اور صحافتی اقدار کی بلندی کا علم ہاتھ میں لے کر معاشرے کے تن مردہ میں روح پھونکی اور صحافت کو استقلال کی بلندیوں تک پہنچادیا ہر دور کا مؤرخ ان کی عظمت کی کہانی کو معاشرے کی تعمیر کی داستان میں عنوان کے طور پر لکھے گا اقبال نے اسی اوالعزمی پر کچھ اس طرح سے تعریف کی ہے۔
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جناب مجید نظامی کی تلوار درحقیقت ان کا قلم تھا اور اس تلوار نے ہمیشہ اعلیٰ مقاصد اور حق گوئی کے لئے معرکہ آرائی کی اور وقت کے آمروں کے سامنے جناب مجید نظامی ڈٹے رہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب قلم کا استعمال کسی اعلیٰ مقصد کے لئے ہو تو درپیش مشکلات رائی کا پہاڑ بن جاتی ہیں…؎
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ود ریا
سمٹ کر پہاڑ انکی ہیبت سے رائی
انہوں نے اپنی صحافتی تاریخ میں وہ یادگار نقوش چھوڑے ہیں جو سرمایہ افتخار ہیں بلکہ ہر ذی شعور ان کی طرف سے دیئے گئے مقصد حیات کو سامنے رکھے تو ایک جرأتمندانہ اور باوقار زندگی گزار سکتا ہے جناب مجید نظامی صاحب سے راقمہ کو ملاقات کا شرف حاصل ہوا انہوں نے مجھے اور میری تحریروں کو اعتماد بخشا اور میرے کالم انکی نظر سے گرر کر شائع ہوتے رہے نوائے وقت میں لکھنا راقمہ کے لئے اعزاز کی بات ہے کیونکہ نوائے وقت نے ہمیشہ عظیم مقاصد کی حامل عظیم شخصیات جناب حمید نظامی، جناب مجید نظامی اور محترمہ رمیزہ مجید نظامی صاحبہ کی سربراہی میں حق، سچائی جرأت اور دلیری کا جو علم اٹھایا ہوا ہے اور اسی جذبے نے نوائے وقت کو سرفرازی عطا کی ہے جناب مجید نظامی کے ہاتھوں یہ پودا برگ وبار لایا اور شجر بن چکا ہے کہ اسکے ساتھ ہی دم توڑتی اقدار کو پنپنے کا موقع ملا ہے اور آج بھی رمیزہ مجید نظامی کی سرکردگی اپنے عظیم مقصد کے سفر میں رواں دواں ہے۔
٭…٭…٭