آج کا دن (3اپریل)ایک ایسی شخصیت کی ولادت کا دن ہے جو آنیوالے وقتوں میں آسمانِ صحافت پر درخشاں ستارے کے روپ میں جلوہ فگن ہوئی اور اپنی تابانیوں کی بدولت نصف صدی سے زائد عرصے تک دلوں کومنور کرتی رہی، ایک زمانہ انہیں ’’مجیدنظامی‘‘ کے نام سے جانتا ہے۔ 70کی دہائی میںجب ہم طالب علم تھے تو اس وقت گنتی کے اخبارات شائع ہوتے ۔ان اخبارات میں نوائے وقت بلاشبہ سرِ فہرست تھا۔ سکول کے زمانے سے بچوں کے صفحات میں لکھنے کا شوق تھا۔ کالج میں آ کر مختلف تقریبات کی رپوٹنگ کا شوق ہوا تو نوائے وقت سے یاری سی ہو گئی، نوائے وقت اور مجید نظامی صاحب سے اس زمانے سے ’اخبار نویس اور قاری ‘کا رشتہ استوار ہو اجو انکی رحلت کے دن تک قائم رہا،میرے محب ، سعید آسی (جنہیں میں ’گرائیں‘ کہتا ہوں کہ ان کا تعلق بابا فرید کی نگری ’پاکپتن‘ سے ہے، وہ میرے سینئر اور کالج فیلو ہیں) نے نوائے وقت جوائن کیا تو نوائے وقت اپنا اپنا سا لگنے لگا۔ مجھے مجید نظامی صاحب سے دوستی کا ہرگز دعویٰ نہیں نہ ہی میری کبھی ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی، ہاںالبتہ ان سے واقفیت زمانۂ طالبعلمی سے شروع ہوئی، روشنی کی کرن اندھیروںکا سینہ چیرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس فلاسفی کوسمجھنا ہو یا اس کی عملی تصویر دیکھنا ہو تو مجید نظامی کو دیکھ لیںوہ مجسم روشنی تھے۔کیوں کہ نوائے وقت کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے قائدِ اعظم کے نظریات اور علامہ محمد اقبال کے افکار و تصورات کی آبیاری کی۔ ان کا مطمح نظر تھاکہ پاکستان کوایک ’’جدید اسلامی فلاحی ، جمہوری ریاست‘‘بنایا جائے جس کیلئے ان کی، شبانہ روز کوششیں و کاوشیں سب پر بھاری رہیں۔مجھے یہ دعویٰ ضرور ہے کہ اردو زبان کے جتنے اسمائے صفات (شفیق استاد، بہترین دوست ، محبِ وطن ،دبنگ ،دلیر، نڈر، مجاہد، بہادر) تراکیب اور القاب(مرد ِحُر،خزانۂ ادب، فخرِ صحافت ،صحافت کا ستون،گوہرِ نایاب ،قلم کے مجاہد، مجاہدِ کشمیر،بابائے صحافت، آبروِ صحافت، نظریہ پاکستان کے علمبردار، پاسبان، نگہبان،)فی زمانہ مروج ہیں، خدا لگتی کہوں کہ یہ سب مجید نظامی کی شخصیت کے آگے ہیچ ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی صحافت کا پیشہ جسے ایمان کی حد تک تقدس حاصل تھا ، اس میں ایسے لوگ شامل ہونا شروع ہو گئے جو صحافت کی الف ب سے بھی آشنا نہیں تھے(’لفافہ صحافی‘آج ان کا تعارف ہے) انہوں نے صحافت کو کاروبار بنا دیا۔ یہ تو ہمارے عہدکی بات ہے کہ ’’صحافت کیا ہوتی ہے، ہمارا تو یہ کاروبار ہے‘‘اسکے مقابلے میں مجید نظامی اور نوائے وقت کوبلامبالغہ ’’مینارۂ نور‘‘کہا جاتا ہے۔ انکے بارے میں جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں کیسی کیسی شخصیات صحافت کے پیشے سے منسلک رہیں، انکی ذات میں سقم یا کردار میں کمی بیشی ممکن ہے مگر انکی پیشۂ صحافت سے کمٹمنٹ) (commitmentمثالی رہی، مجید نظامی اصولی صحافت میںصحافیوں کے سرخیل کہے جاتے ہیں۔وہ صرف صحافی نہیں بلکہ اپنی ذات میں ادارہ تھے۔ انہیں صحافت درخشاں ستارہ سے زیادہ صحافت کا درخشاں باب کہنا مناسب ہے، وہ حقیقت میں صحافت کی درخشاں تاریخ ہیں۔اس بات سے شاید کسی کو انکار کی جرأت نہ ہو کی تشکیل پاکستان سے زیادہ اہم کام تعمیرِ پاکستان کا تھا اور ہے۔ حقیقت میں تو یہ ذمہ داری ہمارے سیاستدانوں کی تھی مگر جتنی غفلت ،ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور بد دیانتی سیاستدانوں نے دکھائی وہ تار یخ کا حصہ ہے۔ اس ذمہ داری کو اگر حقیقی معنوں میں کسی نے پورا کیا تو وہ ’’مجید نظامی اور نوائے وقت ‘‘ ہے آج آزادیٔ صحافت کا نعرہ لگانے والوں کو تو خبر بھی نہیں کہ صحافتی پابندیاں کیا ہوتی ہیں؟مجید نظامی نے تو صحافت کیریئر کا آغاز ہی مارشل لاء کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں کیا، انہوں نے تینوں فوجی آمروں کے غیظ و غضب کا مردانہ وار مقابلا کیا، ’ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے‘ کی روایت کا آغاز نوائے وقت نے ہی کیا۔ ایوب خان دو ر میں فاطمہ جناح کو ’’مادرِ ملت‘‘قراردینا بھی جہادسے کم نہیںتھا۔صحافت کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے تو ’ صحافت کے ستون ‘بلا شبہ مجید نظامی تھے۔جو نہ صرف آزادیٔ صحافت پر یقین رکھتے تھے بلکہ ’صحافت میں حق و صداقت ‘پرایمان کی حد تک یقین رکھتے تھے۔ صحافتی اقدار و معیاراور اصولوں کی پاسداری کو ترجیح دیتے، انہوں نے صحافت میں پاکستانی عنصر کو شامل کیا۔ دو قومی نظریے کا دفاع و فروغ اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت اور کشمیریوںسے محبت انکے دل کی دھڑکنوں میں رچ بس چکی تھی۔ قلم سے جہاد کی باتیں تو بہت سنتے ہیں مگر واقعی کسی نے قلم سے جہاد کیا تو وہ مجید نظامی تھے۔ اس بات سے کسے انکار کی جرأت ہوگی کہ نظریہ پاکستان کا تحفظ انکی زندگی کا مقصد و محورتھا، وہ ادارہ ساز شخصیت تھے، نوائے وقت کے علاوہ ندائے ملت، فیملی، دی نیشن، پھول،کیساتھ ساتھ’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ، تحریک پاکستان ٹرسٹ، ایوانِ اقبال اور ایوانِ قائدِاعظم کی بنیادوں میں مجید نظامی کی فکراور فہم وفراست شامل ہے۔ انہیں انکی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں’ستارۂ امتیاز ، نشانِ امتیاز،اور ستارۂ پاکستان‘ سے نوازا جانا دراصل خود ان اعزازات کا وقار ہے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
Apr 03, 2021