مجید نظامی … رہبر پاکستان

دنیا میں بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جوہم سے جدا بھی ہو جائیں تو اپنے شاندار کاموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتی ہیںاور انہیں فراموش کرنا آسان نہیں ہوتا ۔دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسے افراد بہت ہی کم ملیں گے جو کسی عظیم مقصد کی خاطرجیے اور اسی کی خاطر مرگئے۔ایسے افراد کی زندگی در اصل وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا عَلم انھوں نے تھام رکھا ہو تا ہے۔ نامساعد حالات ،مشکلات اور ذاتی مفادات کا حصول ان کی راہ کی زنجیر نہیں بنتا کیونکہ وہ دولتِ عشق سے سرفراز ہوتے ہیں۔اپنے مقصد سے بے پناہ عشق کا جذبہ جب سر چڑھ کر بولنے لگے تو پھر ہر چیز خود بخود سر نگوں ہو جایا کرتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ عشق ایسے آشفتہ سر لوگوں کی روح میں حلول کر کے انھیں نئی دنیا سے روشناس کرواتا ہے جس پر وہ ساری زندگی بلا خوف و خطر پہرہ دیتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے نظریے کی سچائی کی خاطر وہ کسی کو بھی خا طر میں نہیں لاتے بلکہ پوری قوت سے اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کا نظریہ ہی ان کیلئے دوامِ زندگی کا نقیب ہوتا ہے تبھی تو وہ اپنے نظریہ کو ہر شے سے عزیز تر رکھتے ہیں۔جناب مجید نظامی مرحوم کا شمار بھی ایسے ہی نابغہ روز گار لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمارے بنیادی نظریے یعنی نظریۂ پاکستان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا اور تا دمِ مرگ اس نظریے سے سرِ مو انحراف نہ کیا۔ ایسے افرادواقعی صدیوں میں پیداہوتے ہیں جو اپنی قوم کیلئے ہر لمحے سوچتے ہیں جن کی زندگی کاہرلمحہ ایک نظریہ اور مشن پرموقو ف ہوتا ہے۔جناب مجید نظامی نے جو کچھ محسوس کیا اسے ببانگِ دہل کہا۔کسی حکمران کی ناراضگی ،اس کا غصہ اور اس کاجبر کبھی ان کا راہ میں مزاحم نہ ہو سکا۔انھوں نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہتے رہے اس چیز سے بے نیاز کہ دوسرے انکے بے لاگ افکار پر کس طرح کے تحفظات رکھتے ہیں۔زمانۂ طالب علمی سے ہی وہ تحریکِ پاکستان کے متحرک سپاہی تھے۔انھوں نے مشاہیر تحریک آزادی کے ساتھ کام کیا اور یہ اسی کا فیض تھا کہ نظریۂ پاکستان کی حقانیت انکے دل میں پیوست ہو گئی اور انھوں نے خود کو تحریکِ پاکستان کیلئے وقف کر دیا۔ان کی شبانہ روز کوششیں اور قائداعظمؒ سے قربتوں نے انھیں ایسے سپاہی کا روپ بخش دیا جو سر اٹھا کر چلنے کا ہنر جانتا تھا۔ جناب مجید نظامی 26جولائی 2014ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے لیکن اُنکے رشتہ داروں، دوستوں،نظریاتی ساتھیوں اور عقِیدت مندوں کے دلوں میں اُن کا غم ایک خوشبو بن کر مہک رہا ہے۔ خوشبو اِس لئے کہ پُرانی اور نئی نسل کے گوشہ ہائے سماعت میں مجید نظامی کا پیغام بھی بانگِ درا کی طرح گونج رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملّتؒ کے افکار و نظریات کے مُفسّر و مُبلّغ اور نظریۂ پاکستان کے علمبردار کی حیثیت سے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی خدمات لاثانی اور لافانی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’ فلسفۂ غم‘‘ میں کہا تھا  ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبِیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
جناب مجید نظامی کی جبیں تو چاندسے بھی زیادہ روشن ہے اور اُن کا مشن مینارۂ نور۔ صوفیائے کرام ؒ کی تعلیمات کے مطابق انسان کی روح تو اُسکے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ 
قیام پاکستان سے قبل ہندو اخبارات نے مطالبۂ پاکستان اور حضرت قائداعظمؒ کے خلاف ’’میڈیا وار ‘‘شروع کر رکھی تھی۔ ایسے ماحول میں حضرت قائداعظمؒ نے جناب حمید نظامی کو اسلامیان ہند کے مؤقف کی ترجمانی کے لیے اردو اخبار کا اجراء کرنے کی ہدایت کی۔ اسی ہدایت کی روشنی میں حمید نظامی نے اپنے چند ساتھیوں کے تعاون سے نوائے وقت کا اجراء کیا جس کا فیصلہ 23مارچ 1940ء کے اسی تاریخی دن کیا گیاجب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔نوا ئے وقت صحیح معنوں میں حضرت قائداعظمؒ کے مؤقف کی عکاسی کرنے میں وقت کے تمام مسلم اخبارات کا سرخیل ٹھہرا۔ حمید نظامی دوقومی نظریہ کے محافظ سپہ سالارِ صحافت کی حیثیت سے25 فروری 1962ء تک ایک کامیاب مجاہد کے طور پراپنا کام کرتے رہے۔ وفات سے قبل اپنے بھائی مجید نظامی کو لند ن سے بلاکر یہ حق وصداقت کا علَم ان کے سپر دکردیا۔ مجید نظامی نے بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے تحریکِ پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔ اس وقت وہ اسلامیہ کالج ‘ ریلوے روڈ‘ لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے حکومت مخالف جلوسوں میں بھر پور حصہ لیا۔ 1946ء کے تاریخی انتخابات میں انہوں نے طالبعلموں کے ہمراہ مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کے لیے بھرپور مہم چلائی۔ ان کا گھر نوائے وقت کے دفتر کے ایک حصے میں واقع تھا اور یہی تحریکِ پاکستان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ تحریکِ پاکستان کے پہلے شہید عبدالمالک انکے کلاس فیلو تھے۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن