اسلام آباد (عترت جعفری) چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل سکیورٹی ڈائیلاگ میں اپنے خطاب میں ملک کی خارجہ پالیسی کے جو خدو خال بیان کئے ہیں وہ ’سب ‘ کے ساتھ اچھے تعلقات کی سمت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر بھارت راضی ہو تو پاکستان بھی پیشرفت کر سکتا ہے۔ جنرل باجوہ ڈاکٹرائن ان بیانات اور خیالات سے قطعی بر عکس ہے جن کا اظہار گذشتہ چند روز سے اعلی سیاسی سطح سے ہوتا رہا ہے۔ یہ ڈاکٹرائن بتا رہی ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کی بجائے اس میں بہتری کی خواہاں ہے۔ آرمی چیف نے امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن کا ذکر کیا اور کہہ دیا کہ کسی قسم کے بلاک یا کیمپ میں نہیں جانا ہے، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ریاست کی ترجیح ہیں۔ گزشتہ چند روز سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا وقت قریب آنے کے بعد وزیراعظم کے بیانات جن میں کھلم کھلا مداخلت کے الزامات عائد کئے گئے تھے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے مستقبل پر سائے نظر آ نا شروع ہو گئے تھے۔ مگر اب ایک اہم فورم پر بیان کردہ جنرل باجوہ ڈاکٹرائن سے ان کا ازالہ ہو جائے گا۔ روس یوکرائن جنگ کے آغاز کے بعد سے حکومت کی جانب سے اس تنازعہ کے پرامن حل کا مئوقف دیا گیا تھا، جنرل قمر جاوید نے واضح کہا کہ جارحیت روکی جائے، اس معاملہ میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ اس مئوقف سے جو سیاسی سطح پر بیان کیا جاتا رہا ہے، آرمی چیف نے بھارت سے سپر سانک میزائل کے واقعہ کے باعث خطے کے ممالک کو درپیش خطرہ کی جانب درست اشارہ کیا ، عالمی برادری کو اس خطرے کی جانب توجہ دینی چاہئے، سیاسی حکومت کے برعکس جنرل قمر جاوید باجوہ نے کھل کر کہا کہ کہ اگر بھارت راضی ہو تو پاکستان بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔