اسلام آباد (شاہزاد انورفاروقی) تاحال وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جو بیانیہ اختیار کیا ہے وفاقی دارالحکومت کے حلقے اس کا موازنہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘کے بیانیے کیساتھ کررہے ہیں ایک بات واضح ہے کہ عمران خان اپنی جماعت اور عوام کو نئے انتخابات کے لیے متحرک کررہے ہیں آج عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ جو بھی نکلے وہ پوری کوشش کریں گے اب اگلے انتخابات جلدازجلد ہوں ۔ نواز شریف اورمولانا فضل الرحمنٰ پہلے ہی قبل از وقت انتخابات کی خواہش رکھتے تھے تو یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ بدترین سیاسی مخالف قبل از وقت انتخابات کے ایجنڈے پر ناچاہتے ہوئے بھی اکھٹے ہیں ۔’’مجھے کیوں نکالا‘‘کے بیانیے میں ہدف تنقید کچھ اور حلقے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں جو بیانیہ قائم کیا جارہا ہے اس میں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کونشانہ تنقید بنایا جارہا ہے۔دلچسپ سوال یہ ہے کہ آج کے بعد جوبھی صورتحال بنے گی وہ کتنا عرصہ قائم رہے گی ؟معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگر میاں شہباز شریف وزیراعظم بن گئے تو خواہش کے باوجود بھی وہ ان اسمبلیوں کو جلد رخصت نہیں کر پائیں گے ۔اب عمران خان نے کسی بھی ممکنہ آئینی ترامیم کو روکنے کے لیے تمام اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر مستعفٰی ہونے کی حکمت عملی پر کام کرنے کے ذریعے یہ پیغام تمام متعلقہ فریقین کوبھجوادیاہے کہ وہ اگرپورے سسٹم سے اپنے منتخب افراد کو لے کر باہر نکل گئے تو باقی ماندہ نظام کے ڈھانچے پر ایک سوال کھٹرا ہوجائے گا اور کیا ایسے بچے کچھے نظام کے ساتھ اگر قانون سازی یا تبدیلیاں کی گئیں تو وہ مؤثررہ بھی سکیں گی یانہیں ؟