پاکستانی صحافت میں جب بھی نظریات کی بات ہوگی حریت فکر کا اظہار ہوگا۔ اخلاقیات کا تذکرہ ہوگا۔ حق گوئی و بے باک صحافت کا ذکر ہوگا۔ اس وقت جناب مجید نظامی کے لئے بھی کلمہ خیر کہا جائے گا۔ یہ اعزاز بڑے نصیب کی بات ہے۔ بطور صحافی بطور اخبار مالک انہوں نے کبھی بھی کہیں بھی حق گوئی و صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ نظریہ پاکستان کو دل و جاں سے تسلیم کرکے تاحیات اس کی آبیاری کی صرف یہی نہیں بلکہ ایک ایسی نسل کی تربیت کی جو آج ان کی وجہ سے نظریہ پاکستان کے تحفظ اور ترویج کے لئے ایک نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں مصروف ہے۔ مارشلائی آمریت ہو یا جمہوری جبر کا راج مجید نظامی نے ہر جگہ اپنے کردار کے ایسے انمنٹ نقوش چھوڑے کہ پاکستانی صحافت میں اس جیسا کوئی کردار ڈھونڈنے سے نہیں مل پائے گا۔ وہ حقیقت میں
آئین جوانمردی حق گوئی و بے باکی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
کی عملی تصویر تھے کوئی خوف کوئی جبر ان کو راہ حق سے ہٹا نہیں سکا۔ وہ استقامت کا کوہ گراں تھے حق پر ڈٹ جانے والے تھے جو جاتے اور نفع و نقصان کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کا اخبار‘ ان کا قلم اور ان کی زبان سچ کہیں تو ان کی ساری زندگی
ہزار خوف ہوں لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی ازل سے رہا ہے قلندروں کا طریق
کی عملی تصویر تھی۔ وہ سچ کہتے اور لکھتے‘ نوائے وقت کی تاریخ گواہ ہے کہ آج جہاں جہاں جو کوئی حق گوئی و بے باکی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ وہ اس سکول سے پڑھ کر گیا یہاں سے ہے تربیت لے کر گیا ہے۔ یہی ادارہ ان کے قلم اور شناخت کی نشوونما کا وسیلہ بنا جس کے چلانے والے کا نام مجید نظامی تھا۔انہوں نے ساری زندگی تحمل برداشت اور خندہ پیشانی سے ہر جبر سہتے ہوئے حریت فکر کی رہنمائی کی۔ اخلاقیات کے فروغ کو اپنا شعار بنایا۔ آج تک نوائے وقت اعلیٰ صحافتی اقدار کا نمونہ ہے۔ لچر پن‘ بد زبان‘ الزام تراشی اور جھوٹی خبروں سے اس کا دامن تہی ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ جناب مجید نظامی کے سر ہے۔ جنہوں نے اسے ایسا ادارہ بنا دیا یہاں ایسے ایسے صحافیوں کو تربیت دی جو جو کم از کم اخلاق باختہ صحافت سے بہت دور ہیں۔ وہ سرتاپا پاکستان تھے۔ نظریہ پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان اور ملکی سلامتی کے دفاع کی جنگ ساری زندگی لڑتے رہے وہ خود ہی اس جنگ کے ہیرو بھی تھے اور سالار بھی۔ پیسوں کیلئے عہدوں کیلئے انہوں نے کبھی اپنے ضمیر و قلم کا سودا نہیں کیا۔ان کی زندگی کی آخری خواہش یہ تھی کہ مسئلہ کشمیر کا آبرو مندانہ حل نکل آئے۔ وہ حصول کشمیر کو تکمیل پاکستان کا نام دیتے تھے۔ اور تاحیات تکمیل پاکستان کے محاذ پر برسرپیکار رہے ۔ وہ آسمان صحافت کا قطبی ستارہ تھے جو ایک جگہ جما رہتا ہے۔ جس سے آج بھی اور آنے والے دور میں بھی صحافی راہنمائی کا کام لیں گے۔ کیونکہ وہ ان میں سے نہیں تھے جو ہواؤں کے ساتھ رخ بدل لیتے تھے۔ وہ دن رات‘ خزاں ہو یا بہار ہمیشہ اپنی جگہ پر اپنے اصول پر قائم رہنے والے شخص تھے۔ یہی استقامت ان کی ذات اور انکی صحافت کو سب سے علیحدہ تشخص عطا کرتی ہے۔ نہ انہوں نے کبھی حکمرانوں کے درپہ جبہ رسائی کی نہ خوشامدانہ پالیسی اپنائی۔ اپنوں کی بات چھوڑیں۔ غیر بھی ان کے اس خوبی کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ حقیقت میں ایک دروریش صفت صحافی تھے۔ مال و دولت نمود و نمائش سے کوسوں دور رہتے۔ حکمران سے تعلق بڑھانے کا انہیں نہ تو شوق تھا نہ وہ اسے کاروبار کے لئے استعمال کرنے کے متمنی رہے۔
میاں شریف فیملی سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ میاں شریف‘ نوازشریف اور شہباز شریف ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ مگر اس کے باوجود وہ ان سے کوئی منفعت حاصل کرنے سے ہمیشہ دور رہے۔ الٹا ان کی غلطیوں پر انہیں ڈانٹ بھی دیتے تھے۔ پیپلزپارٹی سے اختلافات کے باوجود جب زرداری نے استقامت کی راہ پکڑی تو جناب مجید نظامی نے اس کی بھی تعریف کی۔ ایوب خان‘ جنرل ضیائ‘ یحییٰ خان اور مشرف دور میں تمام تر سختیوں کے باوجود وہ مادر ملت فاطمہ جناح‘ بے نظیر بھٹو اور کلثوم نواز کی آواز بن گئے۔ نوائے وقت نے آمریت کے خلاف ان تین خواتین کو عوام کے سامنے ہیرو بنا دیا جو جمہوریت کی جنگ لڑ رہیں تھی۔وہ اس ملک کے فرزند تھے۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی اختلاف بننے کبھی نہیں دیتے تھے۔ تنقید برائے اصلاح کے قائل تھے۔ بظاہر سخت اور خاموش نظر آنے والے مجید نظامی زیادہ تر پنجابی میں بات کرتے تو شفگتہ بیانی جو پنجابی زبان کا خاصہ ہے۔ ان کے پرسکون چہرہ پر مسکراہٹ بکھیر دیں۔ جبکہ سننے والے بے ساختہ معنی ہنس پڑتے ۔ مگر نظامی صاحب صرف مسکرانے کو ترجیح دیتے۔ ان کے ہونٹ اور آنکھیں البتہ انکی ظرافت اور شوخی طبع کی عکاس تھیں۔ جن پر ہمہ وقت ایک شرارت اور مسکراہٹ سنجیدگی کے باوجود ان کی نرم دلی کا راز طشت ازبام کرتی تھی۔ان کی یہی استقامت۔ سنجیدگی اور خاموش مسکراتی آنکھیں آج ان کی یادگار رمیزہ مجید نظامی میں بھی اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ جو عملاً اپنے والد کی تصویر بنی قلم کی جنگ اسی صداقت و دیانت کے ساتھ لڑ رہی ہیں اور حق گوئی و بے باکی کا علم سربلند رکھے ہوئے ہیں۔یہ ان کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ آج رمیزہ مجید نظامی صاحبہ انہی اصولوں پر کاربند ہیں جو مجید نظامی نے بنائے اور ادارہ نوائے وقت ان کی قیادت میں اسی طرح
مصلحت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
کی پالیسی پر کاربند ہے۔ یہ ایک دو برس کی بات نہیں 82 برس کا سفر ہے جو ترقی کی نئی منزلوں کو چھوتا ہوا کامیابی سے جاری ہے اور رہے گا…