امام صحافت مجید نظامی، عالم اسلام کے قابل فخر سپوت

 حکیم محمد عزیز الرحمن جگرانوی  
نظامی خاندان سے ہمارا تعلق جناب مجید نظامی کے بچپن کے دنوں سے ہے ۔ راقم الحروف کے والد گرامی حکیم محمد شریف جگرانوی، جناب حمید نظامی، جناب مجید نظامی کے قریبی عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ ان دونوں عظیم بھائیوں نے تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ راقم الحروف کو بھی جناب مجید نظامی سے درجنوں بار ملاقات کی سعادت حاصل رہی۔ جب بھی ملاقات ہوتی ایک نیا ولولہ، پیغام، تحریک اور نیا جذبہ ملتا۔ مجید نظامی صاحب حقیقت میں انسائیکلو پیڈیا آف پاکستان تھے۔ ایسے بڑے لوگ اپنی زندگی میں کروڑوں لوگوں سے زیادہ تن تنہا کام کر جاتے ہیں اور ان کا کام صدیوں تک تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ جناب مجید نظامی کا قائم کیا ہوا نظریہ پاکستان ٹرسٹ جو نئی نسل کے لیے کام کر رہا ہے وہ کام ہم سب کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے وصال  کے بعد ان کی حقیقی جانشین ایم ڈی محترمہ رمیزہ نظامی نے ان کے مشن کو ٹھیک اسی راہ پر گامزن رکھا ہے۔
مجید نظامی اڑھائی برس کے تھے کہ یتیمی میں بچپن کی شگفتگی کی جگہ افسردگیوں کا حصار قائم ہو گیا۔ آپ کے والد مرحوم صابن بنانے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ ان کی قید حیات اس طرح پوری ہوئی کہ صابن بھی خود بناتے اور اس کو فروخت بھی خود کیا کرتے تھے۔ مجید نظامی کا آبائی گھرسانگلہ ہل شیخوپورہ میں ہندوؤں کے محلے میں تھا۔ جہاں مجید نظامی کی والدہ ہندو ہمسایوں کے احترام کا خیال رکھتی تھیں۔ جب تک مجید نظامی کے والد زندہ رہے گھر میں رکھے کڑاہوں میں کیمیکل وغیرہ سے محلول تیار ہوتا جسے مشینی ٹھپے سے  ’’صابن‘‘ بنایا جاتا تھا۔ صابن کی دکان گھر کی پشت پر تھی۔ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ کو گھر، دکان اور کاروبار سمیت سب چیزوں کو خیرباد کہنا پڑا، کیونکہ بیٹے ابھی اس قابل نہیں تھے کہ یہ کاروبار چلا سکتے۔
مجید نظامی کی والدہ اپنے بچوں کو خود قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔ مجید نظامی بھی عمربھر کم و بیش صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے۔ والدہ سے قرآن پاک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجید نظامی میونسپل بورڈ کے پرائمری سکول سانگلہ ہل میں داخل کرا دیئے گئے۔ شہر نما قصبے سے سکول کے دروازے تک لمبی پکی گلی جاتی تھی۔ سکول کے اندر پگڈنڈیوں کے اطراف میں اتنے پھول کھلتے تھے کہ کسی باغیچے میں سے گزرنے کا گماں ہونے لگتا تھا۔ یہ پرائمری سکول کمپنی باغ کے پہلو میں واقع تھا۔مجید نظامی نے پرائمری کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل میں درجہ نہم تک تعلیم مکمل کی۔مجید نظامی ڈرائنگ کے بہت اچھے طالب علم تھے۔ فنون لطیفہ سے محبت کے اسی رحجان نے آگے چل کر مجید نظامی کو دولت سمیٹنے کے چکر میں نہیں پڑنے دیا۔ مجید نظامی ذہین طالب علم تھے لہٰذا ہر سال اول آتے۔تاہم  مجید نظامی دوست بنانے میں بڑے محتاط تھے۔ اس زمانے میں ان کے دوست شوکت علی خان اور حامد حسین ہوا کرتے تھے۔
سانگلہ ہل سے ’’شاہ کوٹ‘‘ دس بارہ میل کے فاصلے پر تھا جہاں ہر سال پیر نولکھ ہزاری کے مزار پر میلہ ہوا کرتا تھا اور مجید نظامی ہر سال تانگے پر جایا کرتے اور بابا نولکھ ہزاری کے مزار سے فیض سمیٹتے ۔ ایک دفعہ نواز شریف نے  دوران حکومت مجید نظامی کو اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سانگلہ ہل چلنے کی دعوت دی مگرمجید نظامی نے جواب دیا کہ میری اور آپ کی تعلق داری ہے لیکن میں اپنے شہر کے لوگوں پر یہ رعب ڈالنا نہیں چاہتا کہ میں وزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سے نکلا ہوں۔ 
آبائی قصبے سانگلہ ہل میں مجید نظامی کے بڑے بھائی بشیر نظامی ہی مستقل قیام پذیر ہوئے جو تقسیم ہند کے وقت بک سیلر تھے اور مسلم اخبارات کے ایجنٹ بھی تھے جن میں ’’زمیندار‘‘ ’’احسان‘‘ ’’شہباز‘‘ اور بعد میں ’’نوائے وقت‘‘ بھی شامل ہوا۔ مجید نظامی کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ بڑے بھائی حمید نظامی نے میٹرک میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی تو وظیفہ مقرر ہو گیا اور وہ اسلامیہ کالج لاہور آ گئے۔ 1938ء میں حمید نظامی نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا اور ایف سی کالج میں ایم اے انگلش میں داخلہ لے لیا۔ اسلامیہ کالج کے دور سے  اس کے میگزین کے  مدیر رہے اور دیگر جرائد میں لکھتے رہے۔ زمانہ ء طالب علمی میں 1937ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی صدر منتخب ہوئے۔ حمید نظامی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لکھنؤ اور جالندھر میں  بھی شرکت کی ۔نوائے وقت 23مارچ 1940ء کو پندرہ روزہ  کی شکل میں ان ہی کی ادارت میں شائع ہوا۔ اسی روز لاہور میں ’’قرار داد پاکستان‘‘ منظور ہوئی ۔
مجید نظامی بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ جبکہ چھوٹے بھائی خلیل نظامی ایف اے تک تعلیم حاصل کر سکے اور نوائے وقت کے پریس منیجر بنے۔ 
مجید نظامی نہم کے بعد لاہور آ گئے اور میٹرک پرائیوٹ کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ ایف اے میں آرٹس کے مضامین کا انتخاب کیا۔ تحریک پاکستان کا زمانہ تھا جلسے جلوسوں میں شرکت کے باعث طالب علموں کو بغیر امتحان دیئے اسناد دی گئیں مگر مجید نظامی نے تحریک پاکستان میں بھی بھرپور حصہ لیا اور باقاعدہ امتحان میں دے کر ایف اے کی سند حاصل کی۔آپ کے بڑے بھائی حمید نظامی کی خواہش تھی کہ وہ بی کام کریں، کچھ دیر آپ سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز جیسے دوستوں کیساتھ بی کام میں پڑھتے رہے ۔مگر   بھائی کو بتائے بغیر تھرڈ ایئر میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گئے اور بی اے مکمل کیا۔  جس کے بعد اس کالج سے ایم اے پولیٹیکل سائنس میں تعلیم مکمل کی۔
مجید نظامی بھی تحریک پاکستان کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک  رہے،تحریک میں شامل  اولین شہید عبدالمالک اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں مجید نظامی کے کلاس فیلو تھے۔ جنہیںطلبا کے ایک جلوس کے دوران سناتن دھرم کالج لاہور (موجودہ ایم اے او) لاہور کی چھت  سے ہندو طلباء نے خشت بار ی سے  شہید کر دیا۔ اس وقت مجید نظامی عبدالمالک کے شانہ بشانہ تھے۔
 حمید نظامی مرحوم کی شدید علالت کی خبر مجید نظامی کو شورش کاشمیری نے دی۔ اس وقت مجید نظامی لندن گریز ان لائبریری میں تھے۔ بھائی کی علالت کا سن کر وہ جس حال میں تھے اسی روز، اسی وقت فوراً واپس چلے آئے۔ جونہی وہ لاہور پہنچے بھائی نے آنکھیں کھولیں اور کہا۔ ’’اچھا ہوا تم آ گئے‘‘ اور اتنا کہہ کر ابدی نیند سو گئے۔ یہ وہ پانچ الفاظ تھے جن میں مجید نظامی پر حمید نظامی کے اعتماد کا اظہارپوشیدہ تھا، جسے مجید نظامی نے تاحیات برقرار رکھا۔

ای پیپر دی نیشن