دبنگ شخصیت کا عملی مظاہرہ 

دبنگ شخصیت کا عملی مظاہرہ 
ڈاکٹر سلیم اختر 
آج3 اپریل کو امامِ صحافت جناب مجید نظامی کا 95واں یومِ ولادت منایا جارہا ہے۔ مجید نظامی 12شوال 1348ھ بمطابق 3اپریل 1928ئ سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سانگلہ ہل میں ہی حاصل کی۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں حصول تعلیم کے دوران تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا اور 1946ءکے تاریخی انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے انہیں مجاہد پاکستان کی سند اور تلوار عطا کئے۔1962 ءمیں اپنے بڑے بھائی جناب حمید نظامی کی رحلت کے بعد روزنامہ نوائے وقت کی باگ ڈور سنبھالی اور اس اخبار کو پاکستانی قوم کی امنگوں کا ترجمان بناتے ہوئے اپنی زندگی کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے وقف کردیا۔ جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہمیشہ مجید نظامی کا طرہ امتیاز رہا۔ انہوں نے اصولوں اور تحریر و تقریر کی آزادی پر نہ تو کبھی سمجھوتہ کیا اور نہ ہی کبھی کسی مصلحت کو آڑے آنے دیا۔ جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک کے ا?مرانہ ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
پاکستان کو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بنانے میں مجید نظامی کا اہم کردار ہے۔ 11مئی 1998ءمیں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر دباﺅ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ جوابی ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف عالمی دباﺅ کی وجہ سے گومگوں کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ ایک طرف عالمی قوتیں انہیں ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کیلئے اپنا دباﺅ ڈال رہی تھیں تو دوسری جانب پوری قوم ایٹمی دھماکوں کے حق میں یکجہت ہو گئی تھی۔ قوم کا جوش و ولولہ دیکھتے اور بھارتی دھماکوں کے بعد اسکی طرف سے پاکستان کو ملنے والی دھمکیوں کے تناظر میں مجید نظامی نے عالمی دباﺅ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نوائے وقت کے دبنگ اداریے تحریر کرنا شروع کر دیئے۔ ایک اداریے کی سرخی کچھ اس طرح جمائی ”میاں صاحب دھماکے کردیں‘ ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی۔ بالآخر میاں نوازشریف کو مجید نظامی کی للکار پر ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اس طرح 28مئی1998ءکو ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن گیا۔ ان اٹھارہ دنوں میں مجید نظامی نے پوری قوم کے سامنے اپنی دبنگ شخصیت کا عملی مظاہرہ کیا جس سے قوم میں نئی تحریک پیدا ہوئی۔ مجید نظامی نے اسلام‘ پاکستان اور جمہوریت پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ تحریک نبوت ہو یا تحریک ناموس رسالت مجید نظامی نے ہر موقع پر اںن تحریکوں میں اپنا اور اپنے ادارے کا بھرپور حصہ ڈالا۔ قومی مفادات کی پاسداری آپ کی زندگی کا مشن تھا۔وہ صدقِ دل سے سمجھتے تھے کہ اگر نوجوان نسل کی نظریاتی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرکے انکے اندر جذبہ¿ حب الوطنی راسخ کردیا جائے تو آئندہ برسوں میں قوم کو ان نوجوانوں کی شکل میں ایک ایسی قیادت میسر آجائیگی جو اس مملکت خداداد کو اسکی غایت وجود سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہو گی۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے نئی نسل کی نظریاتی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کرایا جس کے انتہائی مثبت اور دوررس اثرات و نتائج مرتب ہورہے ہیں۔ مجید نظامی محض ایک صحافی ہی نہیں بلکہ ایک قومی درد رکھنے والے سچے ‘ کھرے اور نظریاتی محب وطن پاکستانی تھے۔ انکے نزدیک نظریہ پاکستان جزو ایمان تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ 
مجید نظامی کی نصف صدی پر محیط صحافتی زندگی اس امر کی غماز ہے کہ انہوں نے آمرانہ اور جمہوری حکومتوں کے عروج و زوال کا مشاہدہ کیا اور ایک محب وطن صحافی کے طور پر ان کا قلم آمروں کے لیے تیغ بے اماں بنا رہا۔حقیقت تو یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکومتوں میں بھی مجید نظامی نے قومی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ جمہوری حکومتوں نے جب بھی کوئی غیر جمہوری انداز اختیار کیا یا پاکستان کے نظریاتی تشخص پر آنچ آنے کا کوئی اقدام کیا تو مجید نظامی اس کیخلاف سینہ سپر ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج ملکی حالات کے پیش نظر انکی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ آج وہ اگر حیات ہوتے تو یقیناً موجودہ سیاسی صورتحال پر نہ صرف کڑھتے بلکہ اس محاذآرائی پر ملک کو نقصان پہنچانے کا اہتمام کرنے والے سیاست دانوں کی خبر بھی لیتے۔ ادارہ نوائے وقت آج بھی انکے زریں اصولوں پر کاربند ہے اور آج بھی لکھے جانے والے اداریوں میں انکی دبنگ شخصیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ مگر انکی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔

ای پیپر دی نیشن