اول و آخرپاکستانی۔۔۔ مجید نظامی
صفیہ اسحاق
مجید نظامی سانگلہ ہل میں 3 اپریل 1928ءکو پیدا ہوئے۔سانگلہ ہل سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مجید نظامی کو بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم نے اپنے پاس لاہور بلا لیا اور انہیں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل کرا دیا گیا۔ حمید نظامی کی رہائش بیڈن روڈ لاہور میں ایک کرائے کے مکان میں تھی اسی جگہ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا دفتر بھی تھا۔ نوائے وقت ان دنوں ہفتہ وار تھا۔ مجید نظامی بھی اسی جگہ اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کے ساتھ رہنے لگے۔قیام پاکستان کے بعد جب روزنامہ نوائے وقت کا اجراء ہوا تو اس کا دفتر شاہ دین بلڈنگ شاہراہ قائداعظم میں منتقل ہو گیا۔ روزنامہ نوائے وقت میں زمانہ طالب علمی ہی کے دوران مجید نظامی نے اخبار کی کاپیاں جوڑنا اور جڑوانا، انہیں اشاعت کے لیے پریس لے کر جانا اور وہاں سے چھپا ہوا اخبار لانا، اس کی ترسیل کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنا حتیٰ کہ قارئین اخبار سے چندہ وصول کرنا بھی انہی کے سپرد تھا۔مجید نظامی نے اسلامیہ کالج لاہور میں 1944ء سے 1946ءتک دو برس گزارے اس دوران پڑھائی کے ساتھ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کیلئے بھی سرگرم عمل رہے۔ اس زمانے میں اسلامیہ کالج کے پرنسپل عمر حیات ملک تھے۔ انہوں نے کالج میں طلبہ کو چھٹیاں دے کر کہا کہ ”آپ نوجوان تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں۔ ان دنوں کالج کے ڈائریکٹر مین پاور سید قاسم رضوی تھے جو قیام پاکستان کے بعد وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے انکے دوسرے ساتھی شفاءالملک حکیم محمد حسن قرشی کے فرزند آفتاب قرشی تھے۔ حمید نظامی کو اس دور میں تحریک پاکستان میں سرگرم عمل ہونے پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی طرف سے ”مجاہد پاکستان“ سرٹیفکیٹ بھی عنایت ہوا تھا۔ اس وقت لیاقت علی خان متحدہ ہندوستان کی کابینہ میں مرکزی وزیر تھے۔مجید نظامی کو تحریک پاکستان کے دنوں کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ ہوتے دیکھا گیا اور اس واقعہ کو کئی بار انہوں نے متعدد اجتماعات میں سنایا۔ انکے بقول مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک جلوس لوئر مال لاہور سے گزر رہا تھاکہ جب وہ جلوس سنا تن دھرم کالج (موجودہ ایم اے او کالج) کے سامنے سے گزر رہا تھا تو ہندو طلبہ نے عمارت کی چھتوں پر سے جلوس اینٹیں برسانا شروع کر دیں۔ ایک اینٹ مجید نظامی کے ساتھی کلاس فیلو عبدالمالک کے سر پرآ کر لگی اور وہ شہید ہو گئے انکے خون کے چھینٹیں مجید نظامی کی قمیض پر پڑیں۔ عبدالمالک تحریک پاکستان کے پہلے شہید تھے انہیں قبرستان میانی صاحب میں غازی علم الدین شہید کے مقبرہ کی طرف جانے والی سڑک کے کنارے دفن کیا گیا۔ مجیدنظامی بتایا کرتے ہیںکہ انہوں نے اپنے دوست عبدالمالک شہید کے خون سے تربتر اپنی قمیض کو برسہا برس سنبھالے رکھا بعد میں وہ کہیںکھو گئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کے بعد1954ءمیں مجید نظامی کو بڑے بھائی حمیدنظامی نے اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن بھجوا دیا۔ اس سے پہلے قریباً چار برس تک مجید نظامی اخبار نوائے وقت میں فکاہیہ کالم سرِراہے لکھتے رہے لندن میں انہوں نے انٹرنیشنل افیئرز میں دو سال کا کورس کیا، ساتھ ساتھ نوائے وقت کے نامہ نگار کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ اسی دوران مکتوب لندن کے عنوان سے انکی ڈائریاں نوائے وقت میں شائع ہوتی رہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ مجید نظامی انیسویں اور بیسویں صدیوں کے اس بڑے حصے پر محیط میدان صحافت کے سالار ہیں۔ جس کا شرف کسی دوسرے صحافی کوحاصل نہیں ہوا مجید نظامی خوش رنگ ، خوش رو اور خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ خوش پوش بھی تھے۔ دنیائے صحافت میں ان صفات کی پیکر شخصیات کم کم ہی ملتی ہیں۔ ایسی تمام خوبیوں کے علی الرغم مجید نظامی قدیم انداز اور جدید روایات کا خوبصورت امتزاج تھے وہ قلم کے دھنی تھے ان کا انداز نگارش جہاں تیز چبھتے ہوئے تیکھے اور نوکیلے فقروں سے مزین ہوتاتھا وہاں مجلسی زندگی میں ان کی گفتگو کا لہجہ ریشم اور شبنم سے مماثلث رکھتا تھا۔ مجید نظامی اول و آخراخبار نویس تھے، ایسا اخبار نویس جو بحرانوں کے تھپیڑے سہتی ہوئی قوم کی بے بسی و مایوسی میں عزم اور حوصلہ کے چراغ چلانے کا فرض پہچانے اور بخوبی ادا کرتا رہے۔